• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً پورا گائوں اکٹھا ہوچکا تھا اور اس شخص سے اظہار افسوس کر رہاتھا جس کے گھر رات کو چور آیا اور اس کے گھر سے مال و اسباب لوٹ کر چلا گیا، کچھ ہمدرد لوٹے جانے والے مال کی مالیت کا حساب لگا رہے تھے اور کچھ سمجھدار لوگ یہ مشورے دے رہے تھے کہ چور تک کس طرح پہنچا جاسکتا ہے ، کوئی کہہ رہا تھا کہ کھوجی کو بلاکر تلاش کیا جائے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ مشکوک لوگوں کے نام لکھ کر لوٹا پھیرا جائے اور کچھ کا خیال تھا کہ 20میل دور سے پولیس بلا کر ان کی منت سماجت کی جائے اور چوروں تک پہنچا جائے جبکہ گھر کا مالک ان ساری باتوں پر توجہ دینے کی بجائے چوری ہونے والی ایک ایک چیز کا نام لے کر اس کے بارے میں بتا بتا کر ہمدردیاں حاصل کررہا تھا کہ ہائے وہ گھڑی جو میرے ماموں کے بیٹے نے دبئی سے بھیجی تھی وہ بھی چوری ہوگئی ہے وہ گھڑی میں نے اپنی جان سے بھی عزیز رکھی ہوئی تھی ، رات کو اس کی سوئیاں بھی چمکتی تھیں پھر دوسرا بھائی منہ بسورتے ہوئے لے جانے والی بکری کی تعریفیں کرنے لگا کہ چوروں کا ککھ نہ رہے وہ ہماری بکری بھی کھول کر لے گیا ہے جو روزانہ صبح و شام دوسیر دودھ دیتی تھی ، وہ چپ کرتا تو پھر پہلابھائی چوری کرلی جانے والی اپنی سائیکل کا رونا رونے لگتا کہ کس طرح اس نے سائیکل کے ہینڈل پر نئی گھنٹی خرید کر لگا رکھی تھی ، گائوں کے لوگ ان کے دکھڑے سنتے جاتے اور دکھ بھرے لہجے میں افسوس کا اظہار کرتے کہ گائوں ایک سمجھدار نے گرجدار آواز میں ان دونوں بھائیوں سے پوچھا کہ تم نے اس چور کو چوری کرتے وقت مزاحمت کیوں نہ کی اور چور کو روکا کیوں نہیں کہ بڑے بھائی نے اپنا سینہ پیٹتے ہوئے کہاکہ ہائے کیسے مزاحمت کرتے اور کیسے چور کو روکتے میں اور میرا بھائی اکیلا اور چور اور ڈانگ(ڈنڈا) دو۔
گزشتہ تین ہفتوں سے فیض آباد میں دھرنا دینے والے خدانخواستہ چور تو نہیں ہیں ہمارے اپنے ہی بھائی ہیں انکے طریقہ کار پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے مطالبے پر حکومت کو ریسپانس دینا چاہیے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی اور جب حکومت کو ہائی کورٹ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ دھرنے کو ختم کرایا جائے تاکہ لوگوں کی زندگی آسان ہو تو اس کے جواب میں ایک پولیس افسر کا یہ بیان شائع ہوا کہ دھرنے میں لوگ تو 18سو سے دو ہزار تک ہیں لیکن دس سے بیس لوگوں کے پاس ہتھیار بھی ہیں یعنی جواب وہی گائوں والے بھائیوں کہ چور اور ڈانگ دو میں اور بھائی اکیلا، اسلام آباد انتظامیہ کے پاس اس وقت فیڈرل کیپیٹل کی پولیس، پنجاب پولیس، رینجرز اور ایف سی کی مدد حاصل ہے خدانخواستہ یہ نہیں کہہ رہا کہ اس ساری فورس کے ساتھ دھرنے والوں پر چڑھ دوڑیں لیکن انتظامیہ کے پاس اس طرح کا سازو سامان ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ حکومتی رٹ میں روڑے اٹکانے والوں کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ جگہ چھوڑ دیں جہاں انہوںنے قبضہ کررکھا ہے ، مثلاً واٹر گن کے ذریعے احتجاج کرنے والوں پر ٹھنڈا پانی پھینک کر انہیں منتشر کیا جاسکتا ہے ،ہلکی آنسو گیس پھینک کر بھی انہیں مجبور کیا جاسکتا ہے ۔لیکن حقیقت میں حکومت صرف سیاسی مقاصد یا اپنی انا کے لئے سارے کام کرتی ہے ، مثلاً پی ٹی آئی کے دھرنے کیلئے آنے والوں کو اٹک کے پل پر مار کر ادھ موا کردیا جاتا ہے ، نابینا افراد کے جائز مطالبات پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، اساتذہ پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں اور ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو کون بھول سکتا ہے جب بلا تفریق نوجوان بوڑھوں ، بچوں اور خواتین کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں گو لیاں ما ر کر شہید کر دیا جا تا ہے اور ان سارے واقعات پر حکومت اپنی اکڑ اور انا کو قائم رکھتی ہے ، بلکہ ابھی ایک دو روز قبل پولیس نے دو انتہائی ضعیف العمر میاں بیوی کو جس طرح اٹھا کر پولیس کے ڈالے میں پھینکا اور گرفتار کرکے لے گئے وہ سب کے سامنے ہے بلکہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا ہے لیکن فیض آباد دھرنے پر حکومت روزانہ جھوٹ بول کر اور غلط بیانی سے کام لے کر عوام کی زندگیوں کو عذاب بنا رہی ہے بلکہ کیپٹن(ر) صفدر صاحب کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میرا بس چلے تو میں خود بھی جاکر دھرنے والوں کا ساتھ دوں اور دھرنے میں بیٹھ جائوں، حکومت کی اس منافقانہ پالیسی نے جڑواں شہر کے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے خالی یہ نہیں کہ دفاتر جانے والوں کو گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد منزل پر پہنچنا پڑتا ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے کاروبار سے لے کر بڑے بڑے کاروبار والے خون کے آنسو رو رہے ہیں مریض سسک سسک کر مر رہے ہیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچے یاتو اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں جانہیں پا رہے یا گھنٹوں پیدل چل کر تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ حکومتیں محض سیاسی فیصلوں یا انا پر نہیں بلکہ اچھی اور درست پالیسیوں کی وجہ سے چلتی ہیں، دھرنے والوں کے جائز مطالبات مان کر انہیں اٹھایا جائے ورنہ دیر ہوجائے گی اور عوام آپس میں دست و گریباں ہوتے پھریں گے۔

تازہ ترین