• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت عرصہ قبل میں نے شفیق الرحمٰن کی کتاب ’’دجلہ‘‘ ختم کی جس کی ایک کہانی میں انہوں نے جعفر زٹلی کی ایک پیروڈی اس کے حوالے سے استعمال کی ہے۔ یہ پیروڈی الف لیلوی کہانیوں کی ہے۔ یہ پیروڈی مجھے اس لئے یاد آئی ہے کہ اس کا ’’ہیرو‘‘ بھی ایک بیل ہی ہے۔ ذیل میں یہ پیروڈی آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ایک باغ میں کچھ لوگ پکنک کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ دفعتاً ایک بیل بھاگتا بھاگتا آتا ہے جس کے تعاقب میں ایک بوڑھا لگا ہوا ہے۔ باغیچے کو دیکھ کر تھکا ہوا بوڑھا ایک طرف بیٹھ کر پسینہ پونچھنے لگتا ہے اور بیل اس کے قطعہ میں گھاس چرنا شروع کردیتا ہے۔ لوگوں نے بوڑھے سے علیک سلیک کی کوشش کی، لیکن اس نے منہ پھیر لیا، پھر کھانے کی دعوت دی اس پر بھی خاموش رہا۔ آخر انہوں نے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا کہ اس کی کہانی اس قدر غمناک ہے کہ خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
سب نے اصرار کیا تو بوڑھے نے بتایا کہ ایک بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ تینوں وزیر کی حسین و جمیل لڑکی پر عاشق تھے، لیکن لڑکی اتنی رحمدل تھی کہ کسی ایک سے شادی کر کے بقیہ دو شہزادوں کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔ چنانچہ وہ تینوں لگا تار شادی کے طلبگار رہے اور لڑکی خاموش رہی۔ اتفاق سے تینوں شہزادے وجاہت، تعلیم، توانائی، شہ سواری اور فنون سپہ گری میں ایک دوسرے کے ہمسر تھے۔ جب انہوں نے کام کاج چھوڑ کر آہ و بکا میں وقت ضائع کرنا شروع کردیا تو بادشاہ نے وزیر کو بلایا اور حکم دیا کہ اب شادی کا فیصلہ فوراً ہو جانا چاہئے لیکن لڑکی بدستور خاموش رہی۔ ادھر شہزادوں کی حالت اور خستہ ہوتی گئی۔ آخر بادشاہ کو طیش آیا ور اس نے وزیر کو خبردار کیا کہ اگر کل شام تک فیصلہ نہ ہوا تو ایک نیا وزیر اس سے چارج لے لے گا۔ وزیر شہزادوں کو شہر سے باہر لے گیا۔ ان کا تحریری اور زبانی امتحان لیا۔ تینوں برابر نکلے پھر نیزہ بازی کرائی، چھلانگیں لگوائیں، دریا میں تیرایا، سارے جتن کئے لیکن اگلی سہ پہر تک تینوں کے نمبر یکساں تھے۔ کچھ اور ٹیسٹ بھی لئے مگر معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔ جب سورج ڈوبنے لگا تو وزیر بہت گھبرایا۔ پریشانی میں ادھر ادھر دیکھا تو ایک بچھڑا نظر آیاجو گھاس چر رہا تھا۔ وزیر نے بوکھلا کر نعرہ لگایا ’’جو اس بچھڑے کو پکڑ لے۔ وہ جیت گیا۔‘‘
تینوں شہزادے سرپٹ بھاگے، ادھر بچھڑے نے ڈر کر زقند بھری اور تعاقب شروع ہوگیا۔ آگے گیلا کھیت تھا جس میں ایک کا پائوں پھسلا اور وہ پیچھے رہ گیا۔ پھر جنگل آیا۔ اس میں بچھڑے نے دونوں شہزادوں کو خوب چکر دیے۔ اونچی اونچی جھاڑیوں میں ایک شہزادہ کسی اور رخ میں نکل گیا اور اب ایک شہزادہ رہ گیا جو پوری مستعدی سے تعاقب کررہا تھا۔ ادھر بچھڑا تھا کہ قریب نہ آنے دیتا تھا۔ ’’وہ دن اور آج کا دن.... مدتیں گزر چکی ہیں۔ وہ بچھڑا پورا بیل بن چکا ہے اور آپ کے سامنے گھاس چر رہا ہے۔ میری بھی عمر بڑھتی جارہی ہے، لیکن تعاقب جاری ہے۔‘‘
سب نے دیکھا کہ بیل گھاس چرنے کے بعد تازہ دم ہو کر بھاگنے کی تیاری کررہا تھا! ’’اچھا تو خدا حافظ‘‘ بوڑھے نے نعرے لگایا۔
یہ حکایت پڑھ کر میرا دھیان فوری طور پر اس طرف گیا کہ گزشتہ 73برس سے ہم لوگ بھی ایک خوبرو پر عاشق ہیں اور یہ خوابوں کی وہ منزل ہے جس تک ہم پہنچنا چاہتے تھے خدا جانے ان برسوں میں کتنے شہزادے اس شہزادی کا خواب دیکھتے دیکھتے مر کھپ گئے یا رستوں میں بھٹک گئے ہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ ٹریجڈی یہ ہے کہ ان کی اور ہم سب کی منزل شہزادی تھی، مگر ہماری عمریں ہر موسم میں ایک بیل کا تعاقب کرتے گزر گئیں!!

تازہ ترین