• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے حالیہ بیانات جس میں انہوں نے اداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور جمہوریت کے سفر میں رخنہ نہ ڈالیں بہت اہمیت کا حامل ہے۔پاکستانی تاریخ میں اداروں کی مداخلت کا جتنا پرچار آج کل ہورہا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔آج 70سال کے بعد بھی ایسا تاثر دیاجارہاہے کہ پاکستان میں شاید ایسے سماج نے جنم ہی نہیں لیا جو جمہوریت کے لئے سازگار ہو۔مفکر،دانشور اورخاص طور پر ترقی پسند دانشور ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ تمام مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔جمہوریت چاہے لنگڑی ،لولی ہی کیوں نہ ہو وہ آمریت سے کہیں بہتر ہوتی ہے۔اس لئے ہمیں جمہوریت کے تسلسل کے لئے سماج میں شعور اجاگر کرنا ہوگا۔
جدید جمہوریت نے جس طرح یورپ میں اپنے قدم جمائے اس نے صدیاں اپنے ارتقا میں لگائیں۔ میگناکارٹا جو کہ پہلا دستور کہلاتا ہے وہ 1215ء میں برطانیہ میں نافذ ہوا جبکہ اس کے چار سوسال بعد قومی ریاست کا تصور وجود میں آیا اور اکثر یورپی ممالک نے عورتوں کو ووٹ کا حق دوسری جنگِ عظیم کے بعددیا ۔یوں ایک فلاحی ریاست کا جدید تصور تقریبا 1ہزار سال کی مشق سے ظہو ر پذیر ہوا۔اس ہزار سالہ تاریخ میں یورپین سماج نے قدامت پرست کلیساجس نے سماجی زندگی پر پورا غلبہ حاصل کیا ہوا تھااس سے اپنے مفکرین اور دانشوروں کی مسلسل قربانیوں کے نتیجے میں چھٹکارہ حاصل کرلیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت ایک مسلسل عمل ہے اور اس عمل کے پختہ ہوتے ہوتے بہت سے فرسودہ ادارے خود ہی روبہ زوال ہوجاتے ہیں۔جمہوریت کوئی ایسا عمل نہیں جو کہ باقی سماجی تنزلیوں سے مبرا ہویا اسے باقی سماجی ترقی سے الگ کرکے دیکھا جاس کے۔جمہوری عمل کو ایک خاص نہج تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ سماج کے باقی عوامل بھی اسی رفتار سے ارتقا پزیرہوںاور اس سماج میں موجود ساری قوتیں اس نظام کے استحکام کے لئے کام کررہی ہوں۔جمہوریت ایک ایسے جسم کا نام ہے جو سر سے پائوں تک آپس میں ہم آہنگ ہواور اس کے تمام اعضاء ایک ہی سمت میں کام کررہے ہوں۔اگر کسی جسم کا سر بہت بڑا ہو اور ہاتھ چھوٹے ہوں تو صاف ظاہر ہے ایسے جسم سے کوئی مثالی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔آج کے پاکستانی معاشرے میں اردگرد کی قوتیں مثلاََ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام،موروثی سیاست،سیاست میں پیسے کا بے دریغ استعمال اور فرقہ واریت کا فروغ وہ عوامل ہیں جو جموری عمل کو باقی سماجی قدروں سے ہم آہنگ ہونے نہیں دیتے۔سونے پہ سہاگا کہ ریاستی ادارے بھی جمہوریت کی سمت متعین کرنے میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔اس لئے ہمیں زمین پر رہ کر سنجیدگی سے یہ فیصلہ کرنا ہوگاکہ جمہوریت کا تسلسل اپنے قدرتی عمل کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔اوراس میں روز روز اداروں کا عمل دخل اس کے ارتقا کو نہ صرف روک دیتا ہے بلکہ اس عمل کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچاتاہے۔یاد رہے کہ جب بھی اس عمل میں رخنہ ڈالاجائے گا تو یہ جمہوری عمل دوبارہ صفر سے شروع کرنا ہوگااورپچھلے ادوارکے ثمرات ضائع ہوجائیں گے۔
کراچی کے حالات پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔حقیقی کو جب کھڑا کیا گیا تو اس نے فطری عمل میںرخنہ ڈالاورنہ عوام اُس وقت بھی ایسی جماعتوں سے چھٹکارہ حاصل کرلیتے جوزبردستی لوگوں سے ووٹ لیتے تھے۔آج کے حالات سے دوبارہ ایسے لگ رہا ہے کہ ادارے دوبارہ اپنی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جس سے کراچی کے حالات کا مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔عوام کو خود اپنا فیصلہ کرنے دیں کیونکہ مصنوعی پارٹیوں کو کھڑا کرنے سے جمہوری عمل آگے نہیں بڑھ پائے گا۔اگرشیخ مجیب کو اقتدار منتقل کردیا جاتا تو شاید مشرقی پاکستان علیحدہ نہیں ہوتا۔اسی طرح بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے اگراس جمہوری عمل کو آگے چلنے دیا جاتا تو شاید عوام بھٹو کے نام تک کو بھول چکے ہوتے۔آج نوازشریف کو اداروں سے نااہل کرواکر دوسرے سیاسی گروپوں کے لئے راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔بلکہ نوازشریف سمیت کسی بھی سیاسی رہنما کوسیاست سے دور رکھنے کا حق عوام ہی کو حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے سیاسی شعور کے مطابق فیصلے کر سکیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک ایک ابھرتا ہوا سیاسی شعور ہوتاہے جس کی عملی مثال یورپین ممالک میں فلاحی ریاست کے تصور سے ملتی ہے جہاں ریاست ماں کا تصور لئے ہوئے ہے اوراس کا محور صرف اور صرف عوام کی خوشحالی میں پنہا ہے۔ ایک ایسا سماج جس کے عوام اپنی ریاست کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں اور جہاں مختلف قومیں اپنے رنگ ،نسل سے ماورا ہو کر امن اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار سکیںایسے سماج کا قیام ایک مسلسل سیاسی عمل کے نتیجے سے ہی ممکن ہے۔آج جب کہ گلوبلائزیشن کا دور ہے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے پل پل کی خبریں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بآسانی پہنچ جاتی ہیںایسے دور میں جمہوری عمل میں رخنہ ڈالنے سے ہم اقوامِ عالم میں اپنی پزیرائی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اکیسویں صدی میں جمہوری عمل سے روگردانی ہمیں کسی منزل پر نہیں پہنچا سکے گی اور اس عمل میں ہم جتنی دیر کریں گے اس سے پاکستانی عوام جدید تصورات اور اس سے حاصل ہونے والے ثمرات سے محروم رہیں گے۔

تازہ ترین