• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر داخلہ احسن اقبال یعنی نون لیگ کے ’’علامہ اقبال‘‘ ہار گئے ۔’’آپریشن ڈبل کراس‘‘کارستانیاں فیض آباد سے نکل کرملک بھر میں پھیل گئیں ۔حکومت مشکل میں پھنس گئی۔ مخالف ’’ہوا ‘‘ چل پڑی۔آنسو گیس ،شیلوں سے نکل نکل کر شیل پھینکنے والےقوم کے محافظوں کی آنکھوں میں بھر گئی۔جی ہاں ۔’’دھرنا ‘‘حدود و قیود سے نکل چکا ہے ۔اُن سڑکوں پر بھی احتجاج کے دوڑتے ہوئےٹائر جل رہے ہیں ۔جنہیں ٹائروں کی رفتار بڑھانے کےلئے بنایا گیا تھا ۔شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک بھی بند ہوچکی ہے ۔نواز شریف کا بنایا ہوا موٹر وے بھی بند کر دیا گیا ہے ۔کراچی کی بڑی بڑی شاہراہیں بھی بند کردی گئی ہیں ۔لاہور سے باہر نکلنا بھی ممکن نہیں رہا ۔معاملہ توڑ پھوڑکی آغوش میں ہے ۔قانون نافذ کرنے والوں کی گاڑیاں آگ کے دامن میں ہیں ، اسلام آباد کےاسپتالوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کردیا گیا ہے ۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب اکیسویں صدی کے علم دین کی شہادت نےحکومت کے کفن کو اپنے لہو سےداغ داغ کر دیا تھا۔میڈیا کی مکمل خاموشی کے باوجوداُس ’’ظلم ‘‘ کا احتجاج چارمیل پر پھیلے ہوئے جنازے کی صورت میں کیا گیا تھا۔اِس ظلم پر پاکستان کی ستر فیصد آبادی پہلے ہی حکومت سے ناراض تھی ۔اب یہ ناراضی غصے میں بدل رہی ہے۔حکومتکا ووٹ بنک اپنی آخری ہچکی لے رہا ہے ۔ایک اطلاع کے مطابق احتجاجیوں میں مانسہرہ اور بھیرہ شریف سے خاص طور پر لوگ آئے ہیں ۔نون لیگ کے دامادکیپٹن صفدراور وزیر مذہبی امور امین الحسنات شاہ کی تمام ہمدردیاں مظاہرین کے ساتھ ہیں ۔نون لیگ کے علما و مشائخ ونگ کے چیئرمین پیر فیاض الحسن قادری نے بھی اپنے ماننے والوں کو مظاہرین کا ساتھ دینے کا حکم جاری کردیا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا کچھ کیوں ہو رہا ہے ۔نون لیگ کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ یہ سب فرشتوں کا کیا دھرا ہے ۔ حکومت کے خلاف چکلالہ کی جنت میں جو سازش کی گئی تھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے ۔سوموٹوکی طاقت کے آگے سر جھکا دیا گیا ہے ۔حیرت ہے کہ صرف ایک شخص کے مستعفی ہونے سے یہ سارا معاملہ ختم ہوسکتا تھا مگر نون لیگ نے معاملہ ختم کرنے کی بجائے اسے بڑھانا بہتر سمجھا ۔مجھے لگتا ہے کہ نون لیگ کے فیصلہ ساز خود بھی اپنے خلاف ہونے والی اِس سازش میں شریک تھے ۔
ذاتی طور پر میں اس معاملے کوکسی اور نظر سے دیکھ رہا ہوں ۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کی کوشش میں اُس مذہبی حلقے کو بہت سخت نقصان پہنچا جوپہلے اقتدار کے ایوانوں میں مذہب کی نمائندگی کرتا تھا۔اب ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اُس مذہبی حلقے کو طاقتور کیا جائے جو پاکستان میں سواد اعظم کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ مذہب سے دلچسپی نہ رکھنے والی سیاسی پارٹیاں کمزور ہوں اور ملک کی مذہبی شناخت جتنی ملک کےلئے فائدہ مند ہے اُتنی برقرار رہے ۔بہر حال لگ یہی رہا ہےکہ نون لیگ کی حکومت نے یہ آپریشن شروع کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے ۔دوسری طرف امریکہ کو یہ تشویش ہے کہ حافظ سعید کو رہا کردیا گیا ۔اس احتجاج میں حافظ سعید اور ا ن کے حواری بھی شریک ہوسکتے ہیں ۔نون لیگ سے اپنا اپنا بدلہ لینے والوں کے لئے یہ موقع بہت اہم ہے۔ممکن ہے ڈان لیکس اور پانامہ کیس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔
یہ بھی کوشش جاری ہے کہ اس احتجاج میں وہ تمام جماعتیں شامل ہوجائیں جن کا تعلق مذہب کی سربلندی سے ہے ۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر ان کی جماعت کا دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی احتجاج میں شمولیت کا اعلان کریں ۔ختم نبوت پر یقین رکھنے والی باقی مذہبی جماعتیں بھی احتجاج میں شریک ہونے کیلئے پر تول رہی ہیں ۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کی بھی تمام تر ہمدردیاں احتجاجیوں کے ساتھ ہیں ۔
ایک عجیب و غریب بات یہ ہے کہ کئی روز سے مسلسل یہی کہا جارہا تھا کہ عدالت عظمی کو یہ تاثر دیا گیا کہ احتجاجیوں کی تعداد ہزار پندرہ سوہے ۔دوچار ہزار پولیس والے انہیں کسی بھی وقت جاکر پکڑ سکتے ہیں اور دھرنا ختم ہو سکتا ہے مگر ہزاروں اہلکار بھی کچھ نہیں کر پائے ۔ یعنی احتجاجیوں کی تعداد غلط بتائی جارہی تھی ۔تحریک لبیک یارسول اللہ کے ترجمان کے مطابق اس وقت احتجاجیوں کی تعداد صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں پچاس ہزار سے زیادہ ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ یہ تحریک ختم ہونے والی نہیں ہے ۔روز بروز اس میں اضافہ ہو گا اس میں دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی شامل ہوتے جائیں گے ۔ پیپلز پارٹی بھی اندرونی طور پر حمایت کرے گی اور ممکن ہے تحریک انصاف کھل کر ان کے ساتھ آجائے ۔ایسی صورت میں نون لیگ کی موجودہ کمزور ترین حکومت اپنے وجود کو کیسے برقرار رکھ سکے گی ۔یہ بھی ایک سلگتا ہوا سوال ہے ۔وہ جو لوگ مسلسل ’’نون لیگ کی حکومت ‘‘کے خاتمےکی پیشین گوئیاں کررہے ہیں ۔کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ احتجاج بھی اسی کی سمت جاتا ہوا کوئی راستہ ہو۔ بہر حال یہ حکومت کے خاتمےکا راستہ بن بھی سکتا ہے ۔اگر حکومت نےاس معاملے کو سلیقے کے ساتھ حل کرنے کی کوشش نہ کی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔اس وقت نون لیگ کی حکومت کے خلاف کسی احتجاجی تحریک کی ضرورت وہ تمام لوگ محسوس کررہے تھے جو چاہتے ہیں کہ ایک لمحے سے پہلے اس حکومت کا خاتمہ ہو تاکہ ملک کسی نئے پاکستان کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا سکے ۔سو اُس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کو میں تو غلط نہیں کہہ سکتا۔میرا تجزیہ یہ ہے کہمجموعی طور پر ایسامحسوس ہورہا ہے کہ یہ نون لیگ کی حکومت کے خلاف آخری احتجاج ہے۔

تازہ ترین