• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین سے میرا لگاؤ پچاس برس سے ہے۔ کبھی ماؤزے ڈونگ نے ہمیں یونیورسٹیاں چھوڑ کھیتوں اور فیکٹریوں کے مزدوروں اور کسانوں سے جُڑنے پہ ایسا اُکسایا تھا کہ بیس برس واپسی میں لگے۔ ہمارے لئے پاک چین دوستی ایسے وقت میں رومانی ہوئی جب پالتو لوگ امریکہ کے بڑے اتحادیوں میں بڑے ہی اتحادی کہلائے جانے پہ بغلیں بجایا کرتے تھے۔ کیسے کیسے شاندار لوگ ممتاز احمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، میجر اسحاق محمد، افضل بنگش، کنیز فاطمہ، طفیل عباس، معراج محمد خاں، ملک معراج خالد، رسول بخش پلیجو، عزیز الدین احمد، عزیز الحق اور راقم اس دوستی کا راگ الاپتے تو ہر طرف سے رجعتی و سرکاری لوگ حملہ آور ہوتے اور یہ ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا بھاشانی تھے جنہوں نے چین سے دوستی کو عوامی جلا بخشی۔ اب تو ہر کوئی پاک چین دوستی کا پرچم اُٹھائے دیوانہ ہوا جاتا ہے۔ یہ ’’تھینک یو امریکہ‘‘ کہنے والے صالحین بھی اب کسی سے پیچھے کیوں رہنے لگے۔ ہر بار جب چین جانا ہوا، نئی حیرتیں لئے لوٹا۔ اس برس بھی دو بار چین جانے کا اتفاق ہوا تو حیرانی بھی حیران کُن ہو چلی ہے۔ ایسی ترقی، اتنی ہمہ نو، اتنی برق رفتار، اتنی انسان دوست اور اتنے قلیل عرصے میں کبھی تاریخ میں کسی قوم، کسی تہذیب نے نہیں دیکھی۔ لیکن نہ تکبر اور نہ بڑی ڈینگیں۔ پانچ ہزار سال سے پرانی تہذیب اور آسمانی ’’وسطی سلطنت‘‘ (زہانگ ہو) کی احیائے نو۔ دور رس نگاہ چینی قیادت بھی کیا کمال کی ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سوویں سالگرہ پر وہ چین کو 2021 میں ایک ’’جدید اور خوش حال معاشرے‘‘ میں ایسے بدلنا چاہتی ہے کہ کوئی غربت کا مارا نہ رہے۔ اس فوری ہدف کے ساتھ ساتھ وہ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 100 ویں سالگرہ پر 2049ء تک چین کو ایک ’’آگو عالمی طاقت‘‘ بنانے پر کمربستہ ہے جبکہ 2035ء تک چین امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہوگا۔ چینیوں کے پاؤں اپنی زمین اور نگاہیں آسمانوں پہ ہیں۔
چین دُنیا میں وہ پہلا ملک ہے جس کی مجموعی قومی ترقی (GDP) 2015ء ہی میں بیس کھرب ڈالر کے مساوی ہو چکی تھی۔ اس وقت چین تجارت، بیرون ملک سرمایہ کاری اور زرِمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے اوّل ہے۔ اور چین دُنیا کی سب سے بڑی صنعتی معیشت بن چکا ہے۔ یہ معاشی زقند چین نے تاریخ میں پہلی بار نہیں لگائی۔ گزشتہ بیس صدیوں میں اٹھارہ صدیوں تک چین دُنیا کا سب سے بڑا پیداواری ملک رہا ہے۔ 1820ء کے اعداد و شمار کے مطابق، چین کا دُنیا کی پیداوار (GDP) میں حصہ 30 فیصد تھا جو کہ مشرقی و مغربی یورپ اور امریکہ کی مجموعی پیداوار سے زیادہ تھا۔ اگر بیچ میں نوآبادیاتی غلبہ نہ ہو جاتا تو دُنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
لیکن چین کی ترقی کا محور وہی ہے جسے کمیونسٹ پارٹی نے اپنی اساسی دستاویز میں یوں بیان کیا ہے: ’’چینی عوام کی خوشی و خوشحالی اور چینی قوم کی احیائے نو‘‘۔ چینی ترقی کا راز چینی کمیونسٹوں کی ’’عوام کی ترقی کی فلاسفی‘‘ میں ہے۔ صرف گزشتہ چند سالوں میں چھ کروڑ لوگ غربت سے نجات پا چکے ہیں اور اگلے تین برسوں میں پورے چین سے غربت کا نشان مٹ جائے گا۔ چینی ترقی کے ماڈل کا اصرار یہ ہے کہ: ’’ہمہ طرفہ انسانی ترقی (تعلیم، مہارت، صحت اور تہذیب) اور ہمہ گیر سماجی ترقی‘‘۔
یہ حکومت اُس خالص سرمایہ دارانہ اور خالی خولی مذہبی مساوات کے طبقاتی نظریات سے قطعی مختلف ہے جس کا پرچار ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور نیو لبرل معیشت دان یا پھر ہمارے بعض مذہبی ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ دہائیوں اور صدیوں سے لوگ ترقی کی اُن بوندوں کی آس میں لگے ہیں جو کبھی ٹپکنے کو نہ تھیں۔ سوشلزم کا جنازہ نکالنے والوں کے لئے چین کے عوام کا ’’ابتدائی سوشلزم‘‘ (Primary Stage of Socialism) سے فیضیاب ہونے کا زندہ جاوید تجربہ کسی تازیانے سے کم نہیں۔ اور ابھی تو کمیونزم کے اگلے مراحل بھی آنے ہیں۔ پھر دیکھئے سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو کیسے کیسے دورے پڑتے ہیں۔ اور ہمارے رجعتی کیسے پینترے بدلتے ہیں۔ کوئی آنکھوں سے تعصب کی پٹی نہ اُتارے اور اپنی جہالت اور نفرت پر مصر رہے تو اُس کی مغفرت ہی کی دُعا کی جا سکتی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی مارکسی، لیننی، فکر ماؤزے ڈونگ، ڈنگ ژیاؤ پنگ تھیوری اور اب کامریڈ ژی کے نئے دور میں ’’چینی طرز کے سوشلزم‘‘ بارے خیالات سے لیس ہے۔ چینی قیادت کا انتخاب طویل کارکردگی پر ہوتا ہے۔ اور صدر ژی کا انتخاب بھی اُن کی عوامی اور قومی خدمات کی تصدیق کرتا ہے۔ اب وہ چین میں قانون کی حکمرانی، احتساب، جدت پسندی اور ماحولیاتی تحفظ پہ زور دے رہے ہیں۔ چینی کمیونسٹوں نے جس طرح ریاستی کنٹرول اور مارکیٹ مکینزم کو استعمال کیا ہے وہ تاریخی طور پر منفرد ہے اور کٹر عقیدہ پرستی اور خلوت پسندی کی نفی کرتا ہے۔ چینی ماڈل کو سمجھنے اور چین سے شراکت داری کے حوالے سے بہت تحقیقی اور مطالعاتی کام کی ضرورت ہے، جو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
چینی شطرنج کے کھلاڑی نہیں جن کا سارا زور مہروں کی مارا ماری میں حریف کی مات پر ہوتا ہے۔ بلکہ وہ وی شی (Weiqi) کے کھلاڑی ہیں جس میں حریفوں کی توجہ ہمہ جہت پیش رفتوں پہ ہوتی ہے کہ مات دیئے بنا مات ہو جاتی ہے۔ یہی اُن کا تذویراتی نظریہ بھی ہے۔ وہ کلازوٹ (Clausewit) کے مغربی حکمت کے نسخوں کے قائل نہیں جس میں سارا زور ’’مرکزِ ثقل‘‘ (Centre of Gravity) اور ’’فیصلہ کُن نکتے‘‘ (Decisive Point) پر ہوتا ہے۔ چینیوں کا تذویراتی گرو سن زو (Sun Tzu) ہے جو جنگ کو لڑے بنا جنگ جیتنے کا گر سکھاتا ہے۔ اُس کاکہنا ہے: ’’اعلیٰ ترین مہارت، ہر جنگ جیتنے میں نہیں، بلکہ دشمن کو بنا جنگ لڑے شکست دینے میں ہے۔‘‘ ہمارے لئے اس میں سیکھنے کے لئے بہت ہے اگر ہم سیکھنے پہ تیار ہوں۔
چین کا عالمی نظریہ بھی ویسا ہی ہے جیسے اُس کی اندرونی انسانی بنیاد۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ چین: ’’ایک ایسی عالمی برادری کی تشکیل چاہتا ہے جس کی بنیاد بنی نوع انسان کے لئے شراکتی مستقبل میں ہو‘‘۔ یہ بھی پرانا چینی نظریہ ہے جو کنفیوشس (فانگ فوزی) نے صدیوں پہلے پیش کیا تھا:’’منصفانہ اور متوازن (Harmonious) راستہ‘‘۔ چین نے کبھی علاقہ گیری نہیں کی۔ وہ داداگیر ہے نہ کسی کی داداگیری (Hegemony) کو ماننے والا۔ چینی روایت ہے جو احترام کرے، سو وہ فیض پائے۔
بقول ہنری کسنجر چین نے ھن سلطنت (25-220 عیسوی) سے اب تک اپنے ہمسایہ ممالک پہ کبھی براہِ راست کنٹرول حاصل نہیں کیا اور بربریت پسندوں کے آپس میں گتھم گتھا رہنے میں ہی عافیت جانی۔ ابھی تک چین کے کوئی جارحانہ فوجی عزائم نظر نہیں آئے۔ اگر امریکہ کے 120 ملکوں میں 640 فوجی اڈے ہیں تو چین کی صرف ڈیجی بوٹی میں ایک بندرگاہ ہے جو فوجی کم اور تجارتی پولیس چوکی زیادہ ہے۔ چین کا دُنیا پہ دھاوا معاشی و تجارتی ہے اور منڈی میں مقابلے کا ہے۔ اب گلوبلائزیشن کا لیڈر امریکہ نہیں چین ہے۔ سرمایہ دار دُنیا کو چین کے سوشلزم کی شہہ مات! اس کا سب سے بڑا اظہار صدر ژی جن پنگ نے ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم الشان منصوبے کی صورت دیا ہے جو ایشیا، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ کو باہم مربوط کرے گا۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) اس کا نہایت جامع ایڈیشن ہے۔ پہلے مرحلے میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے 27 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے پایۂ تکمیل کو پہنچنے کو ہیں۔ جبکہ، جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں طویل المدتی منصوبے کی منظوری دی جا چکی ہے، جس کے تحت 10 قومی معاشی خطوں کے علاوہ، گوادر پورٹ، پاکستان ریلویز اور کراچی سرکلر ٹرین کے اہم منصوبوں پر کام ہوگا۔
خوش قسمتی سے پاک چین تعلقات اب تزویراتی اور سلامتی کے دائرے سے بڑھ کر وسیع تر معاشی، صنعتی، زرعی اور تکنیکی میدانوں تک پھیل گئے ہیں۔ سی پیک یقیناًایک ’’گیم چینجر‘‘ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ہم خود کو اس کے لئے تیار کریں۔ ہمیں چین کے عوامی ترقی کے ماڈل اور ہمہ طرفہ ترقی کے نظریے سے سیکھنا چاہیے۔ اس دوستی کا مقصد مکمل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی استعداد حاصل کرنے پر ہونا چاہیے، نہ کہ دست نگری کی ایک اور صورت۔ پاکستان کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے تقریباً برابر ہے اور ہمارے لئے تشویشناک بھی۔ ہمیں چینی منڈی تک رسائی کے لئے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ لیکن اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ چین یہاں 60 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے جو کہ بے مثال ہے۔ ہمیں چین پاکستان اکنامک کاریڈور کو جنوبی اور وسطی ایشیا کو باہم مربوط کرنے اور اپنی قومی و علاقائی ترقی کے بڑھاوے کے لئے بروئے کار لانا چاہیے۔ پاک چین دوستی زندہ باد! چین، چین ہے تو پاکستان کو بھی عظیم الشان بنائیں!
(سی پی این ای کے چین کے حالیہ صحافتی دورے پہ ہم اگر سوالات کے جوابات پانے کی جستجو میں نہیں گئے تھے تو کیا چینی بطخیں کھانے گئے تھے؟ اس دورے کے حوالے سے ایک معاصر میں بہت سی قابل اعتراض چیزیں شائع کی گئی ہیں۔ مشرقی ترکمانستانی دہشت گردوں کے کرب میں تلملاتے بنیاد پرستوں کی جھنجھلاہٹ اس لائق نہیں کہ اس کا جواب دیا جائے۔ کالم نگارکی ہرزہ سرائی کا معاملہ اب سی پی این ای کے ہاتھ میں ہے اور دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق کی کتنی پاسداری کرتی ہے۔ ایک ہم سفر نے اس پر یہ مصرعہ میری نذر کیا، جس کے لئےشکریہ:
آوازِ سگاں کم نا کند رزقِ گدارا

تازہ ترین