• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ مفاہمت کے بادشاہ مفاہمت سے انکار کر رہے ہیں ۔ ‘‘ آج کل اس طرح کے ٹیکرز مختلف ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں ۔ یہ ٹیکرز اس پس منظر میں چلائے جا رہے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری رپورٹس کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے سیاسی تعاون کی پیشکش کو مسترد کر رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نہ صرف میاں محمد نواز شریف سے ملنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے بلکہ وہ یہ بھی واضح کر رہی ہے کہ ان حالات میں وہ میاں محمد نواز شریف کو ریسکیو نہیں کرے گی ۔ اس پس منظر میں طنزاً یہ کہا جا رہا ہے کہ مفاہمت کا بادشاہ مفاہمت سے انکاری ہے ۔
کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف اس وقت ان قوتوں سے ٹکرا رہے ہیں ، جو ان حلقوں کے بقول ملک میں جمہوریت اور سیاسی قوتوں کی مخالف رہی ہیں ۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی اس حوالے سے جدوجہد کر رہی ہے اور ان قوتوں سے نبرد آزما ہے ، جو جمہوریت کی مخالف اور مقبول سیاسی قوتوں کو ختم کرنے کے درپے رہی ہیں ۔ لہذا پیپلز پارٹی کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دے تاکہ جمہوری اور سیاسی قوتوں کی ’’ فیصلہ کن اور آخری فتح ‘‘ کا باب رقم کرسکے ۔ اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف خود ان قوتوں کی پیداوار ہیں ، جن کے خلاف آج وہ میدان میں نکلے ہیں ۔ ان کا تعلق پنجاب سے ہے اور وہ مقتدر حلقوں کی قوت اور ہتھکنڈوں سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس لڑائی میں انہیں کچھ ایسے حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہو گی ، جن کی حمایت پیپلز پارٹی کو حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ اس لڑائی میں میاں محمد نواز شریف کو وہ رعایت بھی حاصل ہو گی ، جو ماضی میں انہیں حاصل رہی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ رعایت نسبتََا کم ہو گی ۔ اگر نہیں ہو گی تو سختی زیادہ نہیں ہو گی ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کچھ دانشور میاں محمد نواز شریف کو اس جدوجہد کا آخری ہیرو قرار دے رہے ہیں ، جو جدوجہد جمہوریت کے نفاذ اور سیاست کے پنپنے کے لئے حسین شہید سہروردی نے شروع کی تھی اور جس جدوجہد میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جانیں قربان کر دیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح میاں محمد نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی پیداوار ہیں ، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی جنرل ایوب خان کی پیداوار تھے اور ان کی کابینہ کے رکن تھے ۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو بعد ازاں جمہوریت کی بحالی ، عوام کے حقوق اور سیاست کی بالادستی کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں تو نواز شریف بھی اسی راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔ انہیں بھی بھٹو کی طرح آمریت پسند قوتوں کا مخالف تصور کیا جانا چاہئے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس مرحلے پر ان کا ساتھ نہ دے کر آمرانہ قوتوں کو شکست دینے کا موقع ضائع کر رہی ہے ۔
دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا یہ موقف ہے کہ میاں محمد نواز شریف ہمیشہ ان قوتوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں ، جنہوں نے ملک میں جمہوریت اور مقبول سیاسی جماعتوں کو کبھی برداشت نہیں کیا ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف ہر غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام اور عدالتی فیصلے کی حمایت کی ۔ اب وہ کس طرح حسین شہید سہروردی ، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کا وارث ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف آج جن مشکلات کا شکار ہیں ، اگر ان کے لئے یہ مشکلات نہ ہوتیں تو وہ کبھی بھی جمہوریت اور سیاست کی بالادستی والی تحریک کے علمبردار نہ ہوتے ۔ وہ صرف اپنے مقدمات کی وجہ سے عدلیہ اور دیگر اداروں سے ٹکرا رہے ہیں اور اس ٹکراؤ میں وہ مفاہمت کے نام پر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ کبھی جمہوری جدوجہد کا حصہ نہیں رہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ بھی موقف ہے کہ انہوں نے عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کیا ۔ پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مقدمے میں پھانسی دے دی گئی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتہائی نامساعد حالات میں عدالتوں میں پیش ہو کر اداروں پر اعتماد کا اظہار کیا ۔ آصف علی زرداری نے کئی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے لیکن ایسا راستہ اختیار نہیں کیا ، جس سے اداروں پر ان کے عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہو ۔
موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو موقف اختیار کر رہی ہیں ، انہیں درست یا غلط وقت ہی ثابت کر سکتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ریاستی اداروں کو ہمیشہ مضبوط کیا ۔ یہ اور بات ہے کہ پیپلز پارٹی زیادہ ان اداروں کے احتساب کے شکنجے میں رہی ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو ان اداروں سے کبھی ریلیف نہیں ملا ۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے اداروں سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ البتہ وہ اپنی جمہوری جدوجہد اور اپنے نظریات پر کاربند رہی اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر پیپلزپارٹی کو میاں نواز شریف کا ساتھ دینا چاہئے یا نہیں ؟ یہ صرف آج کا نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا بہت پرانا سوال ہے ۔ جب ڈھائی ہزار سال قبل جمہوریت کے لئے برسرپیکار یونان میں عظیم فلسفی سقراط کے دوستوں نے ان سے کہا کہ جیوری ( عدالت ) نے ان کی سزائے موت کا غلط فیصلہ سنایا ہے ۔ انہیں جیل سے بھاگ جانا چاہئے اور ان کے دوست اس میں ان کی مدد کر سکتے ہیں تو انہوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ اس سے افرا تفری اور انارکی پھیلے گی ۔ سماج میں امن واستحکام کے لیے ریاست اور اس کے اداروں کا مضبوط ہونا اور ان پر لوگوں کا اعتماد ہونا ضروری ہے ، چاہے وہ غلط ہی کیوںنہ ہوں ۔
انہیں درست کرنے کے لئے اور طریقے ہیں ۔ سقراط کے اس نظریہ سے لوگ آج بھی اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ریاستی ادارے کمزور نہیں ہونے چاہئیں ۔ انقلاب کی صورت میں نئے اداروں کا فوری بننا ضروری ہے ۔ وہ بھی اگر درست فیصلے نہ کریں تو کیا ہو گا ؟ اگر میاں محمد نواز شریف بالفرض پیپلز پارٹی والا راستہ اختیار نہیں کر رہے اور پیپلز پارٹی اگر یہ سمجھتی ہے کہ نواز شریف اداروں سے کسی منصوبہ بندی کے بغیر ٹکرا رہے ہیں تو پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف درست ہے کیونکہ ادارے بہت اہم ہوتے ہیں ۔ ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں بھی ادارے ہیں ۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں ہم کسی انارکی یا انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

تازہ ترین