ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ محترم سینئرترین ججز کے بینچ سے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم جناب نواز شریف جس ’’جمہوری نظام‘‘ کی بقاکے لئے تگ و دو کررہے ہیں، اس میں ان کا سردست ترجیحی ہدف یہ ہے کہ کسی طور وہ سابق صدر جناب آصف زرداری سے بغلگیر ہوجائیں اور پھر دونوں کی جماعتیں باہمی اشتراک سے اسٹیٹس کو، جو اپنی اصلی حقیقی شناخت اور قوم و ملک کے لئے حتمی نتائج کے اعتبار سے نظام بد ہے، کے تحفظ کے لئے جدوجہدکریں۔ ساڑھے تین عشرے میں مگرمچھ کی سی طاقت حاصل کرنے والے اس نظام کاحتمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملک کی حکومتی سیاست کا مرکز و محور دو سیاسی خاندان ہیں، جن کی سیاست کا سارازور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اقتدار کی باگ ڈور اپنے اپنے خاندان میں رکھنا ہے۔ ثابت شدہ حد تک دونوں خاندانوں کو 20کروڑ غریب عوام سےکوئی غرض نہیں۔ اندازہ تو لگائیں کہ کہاں ن لیگ اور پی پی کے اکابرین اور کہاں دو انوکھے لاڈلے مریم اوربلاول وزیراعظم بننے کے خواب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ ہر دو جماعتوں کے وہ حضرات جنہیں اپنے سیاسی کیریئر، جدجہد اور قومی تاریخ و سیاست کے شعور کے اعتبار سے جماعتی اکابرین کارتبہ دیا جاسکتا ہے انہیں (خصوصاً ن لیگ) پارٹی اور حکومت دونوں میں علامتی نمائندگی دے کر ان کے رتبے کا کوئی کردار نہیں دیا جاتا۔ پی پی بھی صوبائی حکومت کی حد تک اس مکاری پر سختی سے کاربند رہتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ہر دو جماعتوں کے یہ ’’زعما‘‘ اس صورتحال کو مکمل تابعداری سے برداشت کئے ہوئے ہیں جس سے ان کا جمہوریت پر یقین اور اس کا جذبہ بھی اب مکمل مشکوک اور متنازع ہے۔
پاکستانی تاریخ کے 35سالوں کی مہلک لیکن سکہ بند حقیقت یہ ہے کہ آصف زرداری اپنی شہرہ آفاق شناخت (جو قوم و ملک کے لئے تباہ کن ہے) کے باوجود بحالی آئین اور اس کے مطابق منتخب حکومت کے دور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ منصب پرفائزہوئے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف مسلسل اہمیت اور عوام کا اعتماد حاصل کرتی عدلیہ سے عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہونے کے باوجود بذریعہ کالے ترمیمی قانون اسٹیٹس کو کے آزمودہ حربوں سے بکھرتی ڈگمگاتی اکثریت کوجیسے تیسے قابو کرکے پارٹی قیادت کے اہل ہو گئے۔ اس سے قبل بین الاقوامی میڈیا نے تو ن لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اسی فیصلے کو Disgraced قرار دیا تھا چہ جائیکہ پارٹی کے اراکین پارلیمینٹ بھی خلاف آئین و حلف جمہوریت کو دفن کرتے یہ ہی کچھ کر گزرتے۔ فقط اس لئے کہ انہیں خلاف ِ قانون اپنے حلقے کے لئے بھاری بھرکم ’’’ترقیاتی فنڈز‘‘ مل جائیں، جو اصل میں عوامی خزانے سے اپنی سیاست بچانے کےلئے کھلی رشوت ہے۔ یہ تبدیلی کی قوتوں سے اور ملکی عدالتوں میں چیلنج ہوتی اور بین الاقوامی ذرائع سےبے نقاب ہوتی اسٹیٹس کو کی طاقت کی انتہاہےکہ وہ اب بھی آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں سے متصادم ہونے کی اہلیت رکھتی ہے۔
امر واقع یہ بھی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی سیاست حکومت پر دونوں خاندانوں کی مکمل بالادستی اور عشرہ ٔ کفارہ (18-2008) میں بھی ہر دو خاندانوں کی دھماچوکڑی جاری رہی، ایسے میں مہلک مفاہمت کے مقابل تیسری سیاسی قوت بھی پیدا ہوئی، قدرتی راہیں بھی نکلیں،اور ان ہی کی کرپٹ حکومتوں میں ہی وہ صورتحال بنی کہ تابع و مفلوج کئے گئے اور کرپشن سے کھوکھلے کئے گئے ریاستی اداروں خصوصاً سپریم کورٹ آف پاکستان اور نیب اپنے آئینی کردار کی ادائیگی کے قابل ہوگئے۔ گویا عوام دشمن نظام بد (اسٹیٹس کو) اپنی تمام تر طاقت اور اس کے برہنہ مظاہرے اور پاکستان کے لئے اس کے بڑے مہلک نتائج کے باوجود مقابل آئین کے مکمل اورقانون کےیکساںاطلاق کی راہ بالآخر نکل آئی۔ نکل آئی تو اب تبدیلی کے عمل کی طاقت اتنی ضرور ہے کہ مرضی کی حکومت چلانے والے طاقتور حکمران کے آئینی عدلیہ سے قانون کی روشنی میں انصاف پانے والے سابق حکمران کی آہ و فغاںمیں ڈوبا یہ سوال بلند ہوا کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ جس کا خاموش، بے بس اورمحروم عوام کا جواب، ان کےاس سوال کی شکل میں نہیں بنتا؟ ہمیں کیوں لوٹا؟
یہ تو اب ثابت شدہ ہے اور تیزی سے ہو رہا ہے کہ گزشتہ 35سال میں پاکستان لٹ گیا۔ ہمارا عوامی سرمایہ و خزانہ غیرقانونی طور پر چوری ہو کر کرپٹ حکمرانوں کے سمندر پار بھاری بھرکم خفیہ بنک اکائونٹس، پراسرار کمپنیوں اور حیران کن قیمتوں کی جائیدادوں، محلات اور اثاثوں میں تبدیل ہو گیا۔ ہمارے کروڑوں بچے چائلڈ لیبر اوراسٹریٹ چلڈرن بن گئے۔ دیہات کا مان اور قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہماری زراعت روبۂ زوال ہوگئی۔ ناجائز دولت سے شہرۂ آفاق زرخیز زرعی خطے جائز و ناجائز ہائوسنگ سوسائٹیز،فارم ہائوسز، بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری، پراپرٹی ٹائی کونز ہمارا اپنا سیاسی ، اقتصادی کلچر بن گیا۔ نظام تعلیم و صحت برباد ہو کر کامیاب تجارت بن گیا۔ ہم اپنے قدرتی ذرائع توانائی کو خاموش کرکے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ دیہات اور شہروں کی گنجان اور پسماندہ آبادیاںبنیادی سہولتوں سے تیزی سے متاثرہوتی ہوتی مسائل کا گڑھ بن گئیں۔ کراچی جیساشہر پانی اور صفائی کو ترس گیا اور پنجاب بھر کی دولت لاہور کے متنازع میگاپراجیکٹس پرلگا دی گئی۔ دیہات اورچھوٹے شہر بنیادی حقوق کے زمرے میں آنےوالی سہولتوں،جن کی فراہمی کی آئین ضمانت دیتاہے، سے محروم ہوگئے۔ اس کے آئینی نظام، یعنی ’’لوکل باڈی سسٹم‘‘ کو اسٹیٹس کو کے حکمرانوں نے اپنی غیرآئینی طاقت سے دبائےرکھااور بحال ہونے پر بھی انہیں اختیارات سے مکمل محروم رکھا ہواہے۔ دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ کمیونٹی کی سطح کے انفراسٹرکچر کے جوترقیاتی فنڈز لوکل باڈیز کے ذریعے مسائلستان، پاکستان کے گلی، محلوں اور گائوں گوٹھ کے عوام کی زندگیوں کو آسان کرنے کےلئے بذریعہ منتخب لوکل باڈیز خرچ ہونے چاہئیں تھے، وہ بددستور اپنی سیاست و حکومت کے لئے بالائی منتخب ایوانوں (سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں) کے ارکان کو بطور رشوت یاحربہ تقسیم کئے جاتے رہے اور ہیںاور اپنے کام قانون سازی میں یہ سختی سے قابل احتساب، اسی کا شاخسانہ ہے کہ سندھ کے دیہات میں دو مرتبہ مصنوعی قحط پیدا ہوا اورپنجاب کے چھوٹے شہروں ہی نہیں لاہور کے اسپتالوں کے باہر جگہ نہ ہونے، نہ ہی اپنی رہائشی قربت میں یہ اہتمام ہونے کے باعث مائیں بچوں کو راستوں میں جنم دے رہی ہیں کہ ایٹمی پاکستان میں Reproductive Health کی صورتحال دنیا کے چند پسماندہ ترین ملکوں جیسی شرمناک ہے۔
اس پس منظر میں اب اسٹیٹس کو (کے حتمی نتائج نکلنے پر) اور آئین و قانون کی بالادستی والے پاکستان کی حامی قوتوں میں طرز ِ کہن پر اڑے رہنے اور آئین نو برپا کرنے کی جنگ ہر دو جانب سے پورے زور سے جاری ہے۔ دیکھنا اب یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی سماجی پسماندہ طاقتیں برادران اسلام سعودی عرب اور ایران اور عظیم دوست چین سے بھی انسداد ِکرپشن کا کوئی سبق لیتی ہیں یا معزول رابرٹ موگابے کا نظریہ ہی ان کا نظریہ ہے۔