• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے درمیان زیرو بم آتے رہے ہیں تاہم اس دفعہ یہ تعلقات انتہائی نچلی سطح پر اس وقت پہنچ گئے تھے جب امریکی صدر نے افغان پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان کی اہمیت کو یکسر نظرانداز کردیا اور بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک اتحادی بنا لیا تاکہ اُس سے مل کر امریکی بالادستی جو اِس وقت مشکلات کا شکار ہے بحال کرنے میں مدد ملے ۔مگر آہستہ آہستہ امریکہ کو اندازہ ہوا کہ پاکستان کو یکسر نظرانداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے، پاکستان جس محل وقوع پر واقع ہے، پاکستان کی مدد امریکہ کو کسی نہ کسی صورت میں درکار ہوگی۔ حال ہی میں امریکی صدر نے مشرق بعید کے پانچ ملکوں کا دورہ کیا اور وہاں چین کے خلاف، جاپان، بھارت، آسٹریلیا اور امریکہ کا اتحاد بنانے کی کوشش کی گویا نیا سیٹو یا سینٹو معرضِ وجود میں آرہا ہے۔ امریکی صدر اس دورے میں چین بھی گئے اور وہاں انہوں نے گنجائش نکالنے کی کوشش کی۔ کاسمیٹک انداز میں اُن کو کچھ حاصل بھی ہوا مگر بھارت نے اتحاد میں شمولیت میں اگر و مگر سے کام لے کر اپنی اہمیت بڑھائی اور کچھ مزید فوائد کے حصول کے لئے کوشش کی جو چین کے تو نہیں البتہ پاکستان کے خلاف ہیں، تاہم اگر امریکی پالیسی کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں دُنیا پر غلبہ کا عنصر بہت نمایاں ہے اور بعض اوقات مسلم دشمنی انتہائی نمایاں نظر آتی ہے۔ امریکی طویل المدتی پالیسی کو دیکھیں تو امریکہ دنیا کا واحد سپر طاقت رہنا چاہتا ہے۔ اگرچہ اس کو اب چین، روس، شمالی کوریا اور دوسرے ممالک سے چیلنج کا سامنا ہے، پہلے وہ سازشیں کرتا تھا، حکومتیں تبدیل کرتا رہا ہے، ملکوں میں خونریزی کرانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تاہم اس وقت وہ خانہ جنگی کرانے میں روس اور کئی ممالک میں تاحال فیل ہوا ہے، پاکستان میں سیاسی بحران ضرور ہے البتہ پارلیمنٹ، عدالتیں اور فوج پاکستان کے دفاع میں یکسو ہیں۔ اس صورت حال میں اگر پاکستان میں کچھ گڑبڑ بھی ہو تو اس سے نمٹنا مشکل نہیں ہوگا۔ پاکستان نے حسن خوبی سے دہشت گردی پر قابو پایا ہے اور غیرملکی مداخلت کو حسن کمال کارکردگی سے روکا ہے، جس پر دشمن حیران ہے۔ وہ بھارت ہو یا امریکہ یا کوئی اور ملک بہت بُری طرح سے فیل ہوئے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کی معلومات ان کے پاس ہے وہ اس کو یکے بعد دیگرے بروئے کار لارہے ہیں، جیسے نوکری کی تلاش میں نوجوان سرگرداں ہیں تو انہوں نے نوکری کے بہانے بلا کر تربت جیسے واقعہ کو جنم دیا جس میں 20 افراد بے گناہ مار دیئے گئے البتہ پاکستان نے وہ نیٹ ورک اب توڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے دوسرے کئی ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جس نے دشمن کی سازشوں، خودکش حملوں اور بم دھماکوں کو روکا ہے۔ اس میں بہادر فوجی نوجوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا ہے۔ دشمن ملک میں ایسے کام بھی کرا رہے ہیں جس سے بے چینی پھیلے جس میں بھی دشمنوں کو خاطرخواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ پاکستان ایک جدید ایٹمی طاقت ہے۔ امریکہ کا ایٹمی اسلحہ پرانا ہے اور اس کو جدید بنانے کے لئے پینٹاگون نے 3 ٹریلین ڈالر مانگے ہیں۔ پاکستان کا کمان اینڈ کنٹرول سسٹم جدید ہے اس کے ایٹمی اثاثہ جات و میزائل محفوظ ہیں۔ دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت وہ حاصل کر چکا ہے، پاکستان نے کئی جدید ہتھیار بنائے ہوئے ہیں جن میں سے اس نے صرف ایک کا اظہار Multiple Independenly R-entry Vaticle (MIRV) کا تجربہ بھی کیا اور عالمی اخبارات میں لکھا گیا کہ یہ ہتھیار تین مختلف مقامات کو دشمن کے علاقے میں نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہمیں تو نہیں معلوم کہ سائبر معاملے میں ہم کس مقام پر پہنچے ہیں تاہم ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اس طرف پیش قدمی کرچکا ہے۔ وہ منجمد کرنے والے آلات پر بھی کام کررہا ہوگا۔ اسرائیل اور امریکہ نے اس پر کام کیا کہ آئرن ڈروم اور پیٹریاٹ قسم کے نظام وضع کئے تاکہ میزائل حملوں کو روک لے یا روس کا S-400 کا نظام ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آلات منجمد کردیئے جائیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں،ہمارے پاس محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار ہیں جس کی وجہ سے بھارت ہم پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر رہا ہے اور امریکہ بھی ہمارے Tactical Warhead کی وجہ سے جزبز ہے اور اس کا پہلا ہدف ہمارےیہ محدود تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ امریکہ کے پینٹاگون نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار پر قبضہ کرنے کا جو شوشہ چھوڑا ہے اس میں محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہدف نمبر ون قرار دیئے ہیں کیونکہ یہ ہتھیار امریکہ اور روس کے علاوہ کسی اور ملک کے پاس نہیں ہیں، اگر امریکہ اُن کو اپنی دسترس میں لے لیتا ہے تو بھارت کو اس قابل بنا دے گا کہ وہ پاکستان پر حملے کرسکے۔ اس کے بغیر ہم بھارت کے کیل کانٹے سے لیس دستوں کو پھانپ کی طرح اڑا دیں گے۔ عین ممکن ہے کہ امریکہ بھارت کے لئے وہ سائبر استعمال کرے یا وہ چار تجویز کئے گئے اقدامات پر عمل کرے۔ بڑا آپریشن ہو، بھارت اور افغانستان پاکستان پر حملہ کریں اور یہ JSOC (جوائنٹ اسپیشل آپریشن کمانڈ) سریع اطراف مشترکہ کمانڈ ریڈیائی لہروں کی تلاش کے ماہر ہیں وہ اندر گھس کر ہمارے ایٹمی اثاثہ جات اٹھا کر لے جانے کی کوشش کریں اور پھر شاید جن لوگوں نے یہ رپورٹ بنائی وہ جیمز بونڈ فلم کی طرح کام کرتے نظر آتے ہیں مگر اُن کو یہ معلوم نہیں یہ آگ ہے اور وہ بھی جہنم کی آگ اگر برسی تو امریکہ کس طرح بچ سکے گا۔ ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کریں گے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ امریکہ کے افغانستان میں 9 اڈے بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ ہتھیار منجمد کرنے کا ہے۔ کچھ ایسے ہتھیار بھی ہیں امریکہ کے پاس ہیںجو دنیا کو اب تک نہیں معلوم۔ مگر شنید ہے کہ ہمارے پاس بھی کچھ ایسے ہتھیار ہیں جو امریکہ کو نہیں معلوم اس لئے امریکہ کو صرف مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ ذرا احتیاط سے کام لے ہم شمالی کوریا نہیں اور نہ ہی ویتنام یا افغانستان ہیں۔ اگر اس قسم کا کوئی اقدام کیا تو آپ ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ دنیا خطرے میں پڑ جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کس قسم کے ہتھیار ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی فوج جنگ میں نہیں جھونکیں گے البتہ وہ روبوٹ ہتھیار سے کام لیں گے یا سریع الحرکت فورسز سے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اُن کے پاس ہارپ جیسی ٹیکنالوجی ہے جس کو وہ 2018ء میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ خبر اخبارات میں اس طرح چھپی ہے کہ 2018ء میں زلزلے آسکتے ہیں۔ ہارپ، زلزلہ، سونامی یا دونوں لا سکتا ہے، امریکہ کے پاس ہر جگہ رسائی کے لئے ہتھیار ہیں، منجمد کرنے والے آلات ہیں مگر چین نے کوانٹم سیٹلائٹ فضا میں چھوڑ کر اس کے منجمد کرنے والے آلات کو چین کی حد تک بے اثر کردیا ہے۔ چین کو اگر نیا عالمی نظام بنانا ہے تو وہ پاکستان کو بھی اس ٹیکنالوجی تک رسائی دے، اس کے علاوہ ڈرون طیارے، میناتور IV میزائل اور دوسرے آلات ہیں، اگر امریکہ ان کو استعمال کرتا ہے تو پھر یہ انسانیت کو تباہ کرنے کے درپے ہے جس کا کوئی علاج نہیں البتہ ہم اپنا دفاع خوش اسلوبی سے کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین