• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سال پہلے میں نے واصف علی واصف صاحب کی کتاب ’’کرن کرن سورج‘‘ میں یہ پڑھا تھا کہ جو شخص اسلام سے پیار کرے اور مسلمانوں سے نفرت کرے وہ منافق ہے۔ جس کی باتیں سچی اور وعدے جھوٹے ہوں اور جو محسنوں کے ساتھ وفا نہ کرے وہ بھی منافق ہے۔ 25نومبر کی صبح ٹی وی اسکرینوں پر اسلام کے نام پر تشکیل پانے والے ملک میں مسلمانوں کو ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا تو واصف صاحب کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات خوش اخلاقی کا بہترین نمونہ تھی لیکن اُن سے محبت کے دعویداروں کی بدزبانی پر افسوس ہو رہا تھا۔ راولپنڈی کے فیض آباد چوک میں پولیس اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے ہزاروں جوانوں نے آنسو گیس اور لاٹھیوں کی مدد سے کئی دن سے سڑک پر بیٹھے مظاہرین کو اُن کی جگہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔ یہ مظاہرین اراکین پارلیمنٹ کے لئے ختم نبوت کے حلف میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ دار وزیر کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ابتدا میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزراء کا موقف تھا کہ یہ کلیریکل غلطی تھی۔ اس معاملے پر احتجاج کرنے والوں کے مطالبات نظرانداز کر دیئے گئے لیکن جب احتجاج میں شدت آئی تو حکومت نے کلیریکل غلطی کو پارلیمنٹ میں موجود تمام اہم جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کی مشترکہ غلطی قرار دینا شروع کر دیا۔ حکومت کے موقف میں اس تبدیلی نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ بعض حکومتی شخصیات نے راولپنڈی میں دھرنا دینے والوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ تلاش کرنا شروع کر دیئے۔ یہ وہی شخصیات تھیں جو نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے یہ دعوے کر رہی تھیں کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کے خلاف کوئی گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اور اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لئے پیپلز پارٹی کو آنکھیں بند کر کے نواز شریف کی مزاحمت کا حصہ بن جانا چاہئے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت بار بار یہ عذر پیش کر رہی تھی کہ آج کل نواز شریف جو سچ بول رہے ہیں وہ سچ جب ہم بولتے تھے تو نواز شریف ہمیں جھوٹا کہتے تھے لہٰذا ہم نواز شریف کے وعدوں پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے راولپنڈی میں جاری دھرنے کا نوٹس لیا اور حکومت کو حکم دیا کہ دھرنا ختم کروا کر عام شہریوں کی مشکلات دور کی جائیں۔ حکومت نے اس حکم پر عملدرآمد میں تساہل سے کام لیا تو وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا نوٹس دیدیا گیا۔ توہین عدالت کا نوٹس ملنے کے بعد حکومت نے 25نومبر کی صبح دھرنے کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا لیکن آپریشن میں کامیابی نہ ہوئی۔ اس آپریشن سے پہلے اور آپریشن کے دوران بدانتظامی کے باعث جو صورتحال پیدا ہوئی اُس کی ذمہ داری الیکٹرونک میڈیا پر ڈال دی گئی اور دوپہر کے وقت تمام ٹی وی چینلز بند کر دیئے گئے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پر پابندی 25نومبر کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے عائد کی گئی۔ اس وقت تک راولپنڈی سمیت ملک کے کسی شہر میں کوئی انسانی جان ضائع نہیں ہوئی تھی۔ الیکٹرونک میڈیا پر پابندی کے بعد ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی۔ عام لوگوں کو جنرل مشرف کا زمانہ یاد آ گیا جب آئین معطل کر کے تمام ٹی وی چینلز پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ عام لوگ پی ٹی وی اور بھارتی ٹی وی چینلز پر اکتفا کے لئے مجبور کر دیئے گئے تھے۔ اتفاق سے مشرف نے ٹی وی چینلز پر پابندی نومبر 2007ء میں لگائی تھی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومت نے بھی ٹی وی چینلز پر نومبر 2017ء میں پابندی لگائی۔ مشرف کی مذمت کرنے والوں نے مشرف کے ہتھکنڈے اختیار کئے تو اُن پر تنقید ہوئی، طعنے دیئے گئے۔ جواب میں مسلم لیگ (ن) والوں نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے تو جو بھی کیا اعلیٰ عدالتوں کے حکم پر کیا۔ یہ سن کر بہت ہنسی آئی۔ وہ جو بار بار کہتے تھے کہ سپریم کورٹ کے جج غصے اور بغض سے بھرے ہوئے ہیں اچانک اتنے اطاعت گزار بن گئے کہ ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرانے لگے۔ الیکٹرونک میڈیا پر پابندی کی ذمہ داری بھی سپریم کورٹ پر ڈالنا شروع کر دی۔ عام لوگوں نے ٹی وی چینلز بند ہونے کے بعد ٹویٹر، فیس بک اور یو ٹیوب کا سہارا لیاتو سوشل میڈیا بھی بند کر دیا گیا۔ جب عوام پر اطلاعات اور ایک دوسرے سے رابطوں کے بہت سے دروازے بند کر دیئے گئے تو پورے ملک میں افراتفری پھیل گئی۔ غور کیجئے کہ 25نومبر کے ہنگاموں میں ہونے والی اکثر ہلاکتیں الیکٹرونک میڈیا پر پابندیوں کے بعد ہوئیں۔ فیض آباد میں آپریشن کی ناکامی کے بعد حکومت نے جلدی جلدی ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور آئین کی دفعہ 245کے تحت فوج کو بلا لیا۔ ایک طرف سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں واضح طور پر کہا تھا کہ دھرنے والوں کے خلاف آتشیں اسلحہ استعمال نہ کیا جائے اسی لئے پولیس اور ایف سی نے صرف آنسو گیس اور لاٹھیاں استعمال کیں۔ دوسری طرف فوج کو بلانے سے پہلے متعلقہ اداروں کے ساتھ مناسب صلاح مشورہ نہ کیا گیا۔ کیا فوج بھی لاٹھیاں اٹھا کر دھرنا ختم کرا سکتی ہے؟ اگر فوج اسلحے کے ساتھ وہاں جاتی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کو سپریم کورٹ کے مقابلے پر کھڑا کیا جا چکا ہے کیا کوئی فوج کو بھی سپریم کورٹ کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی بدانتظامی کی اصل وجہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں کوآرڈی نیشن کا فقدان ہے۔ ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کے ذمہ دار وزیر کو کابینہ سے نکالنے کا پہلا بلند آہنگ مطالبہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کیا تھا۔ دھرنا بہت بعد میں شروع ہوا۔ دھرنے کے قائدین نے رسول اللہ ﷺ کی محبت کے نام پر صرف کچھ وزیروں کو نہیں بلکہ ججوں اور میڈیا ہائوسز کے بارے میں جو فتوے دیئے وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے منافی تھے لیکن دوسری طرف حکمرانوں نے دھرنے سے پہلے اور بعد میں اپنی سیاسی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر ختم نبوت جیسے حساس معاملے پر جس طرح بار بار اپنا موقف تبدیل کیا وہ نامناسب تھا۔ وہ دانشور جو نواز شریف کو ایک نئے کاروانِ مزاحمت کا امیر بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے محبوب قائد کو یہ بھی بتائیں کہ میر کارواں وہ ہوتا ہے جو کارواں میں شریک افراد میں یکجہتی پیدا کرتا ہے جو کارواں میں یکجہتی کی بجائے انتشار پیدا کرے وہ دشمنوں کے خلاف مزاحمت کی بجائے اپنوں کیلئے زحمت کا باعث بنتا ہے۔ ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کے معاملے نے ملک میں جو انتشار پیدا کیا ہے اسے ختم کرنے کیلئے حکومت کو اپنے رویے پر نظرثانی کرناہو گی اور حکومت کے خلاف صف آرا عناصر بھی یہ خیال کریں کہ رسول اللہ ﷺ کے نام پر مسلمانوں میں انتشار پھیلنے کا نقصان مسلمانوں کے سوا کسی اور کو نہیں ہو گا۔ تمام معاملات سچے دل کیساتھ افہام و تفہیم سے حل کریں، اسلام سے پیار کریں اور مسلمانوں سے بھی پیار کریں ۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے نفرت پر نہ اکسائیں۔ خدارا ہم پر رحم کریں۔

تازہ ترین