• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھرنے، پُرتشدد احتجاج، سیاسی الزام تراشیاں، ذاتی بہتان، دست و گریبان ہوناکیا یہی ہمارے معاشرے کی پہچان ہے۔ کیا یہ انداز سیاست ہمیں ترقی کی منزل تک لے جاسکتا ہے۔ کیا ہم سیاسی نعروں کے چنگل میں پھنس کر دھوکہ کھاتے رہیں اور اپنے بچوں کا مستقبل یونہی تباہ ہونے دیں۔ آج پاکستانی معاشرے سے دلیل ختم ہو چکی ہے۔ دھونس، تشدد کا دور دورہ ہے۔ ہر کوئی مفاد ات کا شکار نظر آتا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کسی کی کٹھ پتلی نہ ہو۔ ہمارامعاشرہ تباہ و برباد ہے، غریب سسک سسک کر مررہا ہے۔ جوان بیٹیاں غربت کے ہاتھوں مجبور، باپ کی دہلیز پر خودکشیاں کررہی ہیں یا مرنے کا انتظار۔ بچے دودھ کو بلکتے ہیں تو ماں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں اکثریت کے پاس اپنی چھت ہے تو کسی کے پاس پیٹ بھرنے کو روٹی نہیں۔ کوئی مجبوری کے ہاتھوں اپنے جگرگوشے بیچ رہا تو کوئی عزت۔ جو بے بس ہیں وہ خود پر پٹرول چھڑک لیتے ہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں انسان کی چادر چھوٹی مسائل اس سے بڑے ہیں۔ انسان بجلی کا بل ادا کرے یا پانی کا، یہ ادائیگی ہو جائے تو گیس کا بل منہ پھاڑے سامنے کھڑاہے۔ جو ان حالات سے بچ نکلا تو مافیا ز کے ہاتھوں گھرا تعلیمی نظام اور اس کی فیسیں تمام خواب چکنا چور کر دیتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کا عام شہری یاس و امید کی کش مکش کا شکار ہو چکا ہے۔ خودکشیوں کی شرح تیزی سے بڑ ھ رہی ہے لوٹ مار قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ عدم برداشت نے اس معاشرے کا گھیرائو کرلیاہے۔ یہ پانامے، یہ جنتوں کے افسانے (پیراڈائز لیکس) یہ سرے محل ، وہ بنی گالے کے تاج محل، یہ جاتی امراء کی شاہی رونقیں، کیا یہی غریبوں کے خوابوں کا محور ہیں، نہیں ہرگزنہیں۔
غربت و افلاس اور بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے محکوم عوام کا گھر دیکھ لیا ہے اور اس میں ایسا بسیرا کیا ہے کہ جیسے دیمک قیمتی لکڑی میں کرتی ہے۔ یہ سیاسی اشرافیہ ایک دیمک ہی تو ہے جس نے ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ غریب اور امیر میں جو خلیج حائل ہے وہ وسیع تر ہو چکی ہے، چند خاندان اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں جبکہ لاکھوں خاندانوں کو ڈھنگ سے روٹی بھی میسر نہیں۔ سیاسی اشرافیہ نے عوام کو بے وقوف بنا رکھاہے، یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ملک کو ترقی پر گامزن کرنے کی سزا دی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برآمدات پچیس ارب ڈالر سے کم ہو کر اٹھارہ ارب پر آگئی ہیں۔ سرکاری کاغذوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر حقیقت سے اس کا اور کوئی تعلق نہیں۔ ستر فیصد بچے آج بھی اسکولوں سے باہرننگ دھڑنگ، بے یار و مد د گار ، مستقبل سے ناآشنا گھوم رہے ہیں۔
قوم کے بچوں کو جس قسم کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے وہ انہیں کلرک، منشی اور پٹواری بنا رہی ہے جبکہ اشرافیہ کو جو نظام تعلیم میسر ہے وہ مال بنانے اور حکمران بننے کا درس دیتا ہے۔نام نہاد حکمرانوں کی اولادیں ہم پر حکمرانی کرتی آئی ہیں اور کررہی ہیں، اب اگلی نسل چھڑی ہاتھوں میں تھام چکی ہے۔ غریب آدمی میں تو اتنی بھی سکت نہیں رہی کہ وہ لنڈے سے کپڑے خرید کر بچوں کو پہنا سکے، زراعت تنزلی کا شکار ہے ، کاشت کار فاقہ کشی پر مجبورہوکر چند اجارہ داروں کے ہاتھوں بک رہا ہے، صنعت تباہ ہو چکی ہے، سیاسی دیمک نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ قوم کو روزگار کے چکر میں پھنسا کر مشین بنا دیا گیا ہے۔ انہیں جلسے جلوسوں اور دھرنوں کا درس دیا جارہاہے۔ کیا دھرنوں اور جلسے جلوسوں پر بہنے والے سرمایہ سے تعلیمی ادارے، اسپتال اور ڈسپنسریاں نہیں بن سکتیں۔ کیا یہ پیسہ کسی ایسے تعمیری کام پر خرچ نہیں کیا جاسکتا جو قوم کو شاہراہ ترقی پر ڈالنے کا باعث ہو۔
غربت و افلاس ختم کرنے کے لئے حکومتی کارکردگی شرمناک حد تک بری ہے مگر حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اس ضمن میں محض زبانی جمع خرچ اور حکومت پر دبائو بڑھانے کے حربے کے طورپر استعمال کرتی ہیں۔ جو سرمایہ دار اور جاگیردار حکومت میں بیٹھ کر غریب عوام کا استحصال کررہے ہیں وہی اپوزیشن میں بیٹھ کر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت پر چھاتہ بردار قابض ہیں اور اکیس کروڑ عوام کے مقدر کی آڑی ترچھی لکیریں تراشتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے غریب کی بیٹی بن بیاہی بوڑھی ہو چکی ہے۔ کتنے لوگوں نے بھوک سے جان دے دی اور کتنے اپنا تن ڈھانپنے کو ترس رہے ہیں۔ اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ معیشت مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے ریاست غیر مستحکم ہورہی ہے۔ وہ انہی عوام کا خون چوس کر انہی پر حق حکمرانی جتاتے ہیں۔
پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والوں کے اپنے اثاثے گزشتہ چند سالوں میں کئی سو گنا بڑھ چکے ہیں جبکہ قومی ادارے وینٹی لیٹر پر ہیں۔ کوئی ہے جو اس سیاسی اشرافیہ کو لگام دے جو ستر برس سے جونک بن کر قومی معیشت کا خون نچوڑ رہی ہے؟ افسوس کہ انہیں لگام دینے والا کوئی نظر نہیں آتا، جو بھی اس کا دعوے دار ہو اس پر خود انگلیاں اٹھ جاتی ہیں۔ ایسے میں عوام ہی ہیں جو ان جونکوں سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔
دشمن کی واضح چالوں، عقل و دانش سے عاری حکمرانوں، سیاست دانوں کی انا پرستی اور ذاتی رنجشوں نے اچانک جو رخ اختیار کیا ہے اس کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ محتاط الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے آپ نے شہیدوں کے خون سے وفا نہیں کی۔ آج صرف جمہوریت ہی نہیں آپ نے بہت کچھ دائو پر لگا دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں۔ پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
ملک میں امن و امان کی تازہ ترین صورت حال ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھ کر صابر سے صابر شخص بھی رنج و غم میں ڈوب جاتاہے۔ ایک مسئلہ جسے پیدا ہوتے ہی حل کیا جانا چاہئے تھا دو تین ہفتوں سے عوام کے صبر کا امتحان لے رہا تھا۔ جب عقیدہ ختم نبوتؐ کے حلف نامے میں ترمیم کی گئی تو شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے ایک وزیر ہاتھوں میں کاغذ لہرا لہرا کر یہ یقین دلا رہے تھے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ کوئی لفظ اور حرف تبدیل نہیں کیا گیا اور پھر یہی صاحب ایک نیا مسودہ قانون ایوان میں پیش کررہے تھے اور ایک بار پھر اس زبان سے کہہ رہے تھے کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے لیڈروں کو اعتماد میں لے کر ترمیم میںترمیم کررہے ہیں۔ عقل و دانش سے محرومی اسی چیز کو کہا جاتا ہے اور پھر کچھ کسر رہ جاتی ہے تو ایک بار پھر ترمیم۔ کہاں گئی راجہ ظفر الحق کی تحقیقاتی رپورٹ۔
کیا تحقیقاتی کمیٹیاں اور کمیشن اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ان کی ساری محنت کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے اور عوام کو اندھااوربہرہ سمجھ لیا جائے۔ اب رہی سہی کسر ٹی وی کے نیوز چینلوں کی نشریات پر پابندی ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ارباب حکومت اور ان کے مشیر باتدبیر کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا آئینہ توڑ دینے سے حالات میں بہتری ہوگی یا ابتری۔ جب لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکھا جائے گا تو افواہوں کا بازار گرم ہوگا اور اس سے حالات اور خراب ہوسکتے ہیں۔خدا کرے ہمارے ارباب حل و عقد اپنے فیصلوں اور روشنی پر نظر ثانی کریں اور ملک میں پہلے سے موجود بحران اگر ختم نہیں کرسکتے تو ان بحرانوں میں اضافہ تو نہ کریں۔

تازہ ترین