• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین بار وزرات عظمیٰ کے عہدے پہ فائز رہنے اور آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے بے دخل کئےجانے والے نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد متعدد مواقع پر اپنے عزائم کا اظہار کر چکے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے نجی اسپتال میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رجب علی بلوچ کی عیادت کے موقع پر جب میں نے ان سے تفصیلی بات چیت کی تواس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ اس بار واقعی ان کی انا بری طرح مجروح ہوئی ہے اور انہوں نے جس رستے پر گامزن ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ اس سے قطعی طور پرپیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔انہوں نے اپنی نئی جدوجہد کو مشن سے عبارت کرتے ہوئے جب تین بار متواتر یہ باورکرایا کہ وہ کسی قیمت پر اسے ترک نہیں کریں گے تو یہ ادراک ہوا کہ نواز شریف نے جس راستے کا انتخاب کر لیا ہے اس میں وہ واپسی کی تمام کشتیاں جلا چکے ہیں۔ ان کے سرد مگر پختہ لہجے سے اپنے مقصد میں کامیابی کا عزم اس لئے بھی جھلک رہا تھا کہ صرف ایک دن قبل ہی ان کی پارٹی کے ایک سو اٹھاسی میں سے ایک سو پینسٹھ ارکان قومی اسمبلی نے پارلیمان کی رکنیت کیلئے نا اہلی کے باوجود ان کی بطور پارٹی صدر اہلیت پر مہر تصدیق ثبت کی اور انہیں نیا حوصلہ اور ولولہ فراہم کیا تھا۔ ان میں سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت چار ارکان مصروفیات کے باعث ووٹ ڈالے بغیر اس لئے چلے گئے تھے کیونکہ وہ دیکھ چکے تھے کہ ان کے ساتھیوں کی مطلوبہ تعداد پوری ہے۔ الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 203 میں پیش کی گئی ترمیم سے پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ کچھ عرصے سے پارٹی کی صفوں میں انتشار اور دراڑ کی اطلاعات سے پریشان نواز شریف کوبلواسطہ طور پہ توانا بنا دیا۔ بھرپور تعداد میں لیگی ارکان کی قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے ایسے خدشات بھی دم توڑ گئے کہ نا اہلی کے بعد نواز شریف کو سیاست سے مائنس کرنے کیلئے پس پردہ قوتیں مسلم لیگ ن میں بڑا شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ پہلی بار ایسا بھی ہوا کہ جن ارکان قومی اسمبلی کو خفیہ کالز کے ذریعے قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کیلئے دبائو ڈالا اور دھمکایا گیا ان میں سے اکثریت نے پارٹی قیادت کو نامعلوم افراد کی اس کارروائی کے بارے میں آگاہ بھی کردیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کیلئے یہ امر بھی نہایت حوصلہ افزا تھا کہ ان پر اعتماد کے اظہار کے موقع پر جو بائیس ارکان غیر حاضر بھی تھے ان میں سے کچھ بیمار یا بیرون ممالک دوروں پر تھے جبکہ گنتی کے ایک درجن سے بھی کم ارکان ایسے ہیں جن کی نیت پرشک کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ناراض گروپ یا فارورڈ بلاک میں شمار کئےجانے والوں میں کینسر جیسی موذی بیماری سے نبرد آزما اس رجب بلوچ کا نام بھی لیا جاتا تھا جنہوں نے اپنی کیمو تھراپی پر پارٹی قائد سے وفاداری کا ثبوت دینے کو ترجیح دی۔ ان کی اسی پارٹی وابستگی کا شکریہ ادا کرنے کیلئے جب نواز شریف نجی اسپتال پہنچے تو رجب بلوچ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میرے سامنے انہوں نے اپنے پارٹی قائد سے عقیدت کے اظہار کیلئے جو الفاظ اد ا کئے وہ سابق وزیر اعظم کی خاموش نہ بیٹھنے کی پالیسی کو شہ دینے کیلئے کافی تھے۔ نواز شریف سے براہ راست گفتگو سے بخوبی اندازہ ہوا کہ وہ جو جنگ لڑنے جا رہے ہیں وہ اسے اپنی ذاتی لڑائی نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے کہ جب ان سے استفسار کیا کہ اپنے اہداف کے حصول کیلئے کیا وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ہاتھ ملائیں گے تو انہوں نے برملا کہا کہ وہ ذاتی رنجشوں یا تعلق واسطے نہیں بلکہ پاکستان کی بہتری،آئین اور قانون کی بالا دستی ،جمہوریت کی مضبوطی اور ووٹ کی حرمت کو یقینی بنانے کیلئے غیر مشروط طور پر ان سے ملنے اور ساتھ چلنے کیلئے تیار ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے یہ بھی دعوی کیا کہ وہ اور ان کی جماعت میثاق جمہوریت پر آج بھی مکمل کاربند ہے۔تاہم مفاہمت کی سیاست کا پرچار کرنے والے آصف زرداری نے ایک بار پھر میاں صاحب کا مدد کیلئے بڑھایا جانے والا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیا ہے کہ میاں صاحب کو صرف اپنی ذات کیلئے میثاق جمہوریت یاد آتا ہے، یہ کسی اصول یا نظریے کی لڑائی ہر گز نہیں بلکہ میاں صاحب کی ذاتی لڑائی ہے جو وہ ملکی اداروں سے لڑنا چاہتے ہیں اس لئےپیپلز پارٹی اس لڑائی میں ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ سابق صدراور ان کی جماعت کو یہ شکوہ بھی ہے جو وہ بار بار کرتے ہیں کہ جب ان پر مشکل وقت تھا تو میاں صاحب نے نہ صرف ان سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی بلکہ انہوں نے اپنے مرکزی رہنماوں کو پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطہ رکھنے سے بھی روک دیا تھا۔ پیپلز پارٹی اب یہ بھی باربار جتاتی ہے کہ جب مشکل وقت گزر جاتا ہے تو میاں صاحب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اس لئے اس بار انہیں سہارا فراہم نہیں کیا جائے گا۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو سوچنا چاہئے کہ یہاں معاملہ پرانے حساب چکتا کرنے کا نہیں بلکہ سویلین بالا دستی ،آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کو پٹری پر گامزن رکھنے کا ہے۔ مورخ جب تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو وہ یہ ہرگزیہ بیان نہیں کرے گا کہ آصف زرداری نے اس لئے نواز شریف کا ساتھ نہیں دیا تھا کیوں کہ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں میمو گیٹ سے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی تک اپنا وزن دوسرے پلڑے میں ڈالا تھا ،مورخ ان الفاظ سے بھی سفید صفحات کو سیاہ کبھی نہیں کرے گا کہ آصف علی زرداری نے سب پربھاری ہونے کے شوق میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا تھا اور مورخ اس بات پر بھی معترض نہیں ہو گا کہ نواز شریف نے اسلئے آصف زرداری کا ہاتھ تھامنے سے انکار کیا تھا کہ وہ اپنا کلا مضبوط رکھنا چاہتے تھے۔ مورخ صرف یہ لکھے گا کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی یکساں خلاف ورزی کی اور پاکستان میں جمہوریت کو پہنچنے و الے نقصان کے ذمہ دار نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ہیں۔ کیا دونوں جماعتیں ایک بار پھر بھول گئی ہیں کہ نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے 14 مئی 2006 کولندن میں دستخط کے بعد جس میثاق جمہوریت کو 1973 کے آئین کے بعد سب سے مقدس دستاویز قرار دیا تھا اس میں طے پایا تھا کہ دونوں جماعتیں آمریت کے خلاف مل کر جدوجہد کریں گی۔ کل تک نوے کی دہائی کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کے دعوی کرنے والے جب آج ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں تو بے ساختہ مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ قول یاد آ جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ بھلے آج پاکستان پیپلز پارٹی نئی مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق صوبوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم سے متعلق آئینی ترمیم کو ایوان بالا سے منظور نہ ہونے دے، بے شک آصف زرداری اور بلاول بھٹومشکلات میں گھرے نواز شریف کیساتھ ہاتھ نہ ملائیں لیکن اگر جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا تو پاکستان کے عوام یہ ضرورپوچھیں گے کہ سابق صدر آصف زرداری نے کیا پاکستان کھپے کا نعرہ صرف اقتدار کے حصول کیلئے لگایا تھا، انہیں مفاہمت کا سبق کیا صرف تب تک یاد تھا جب تک انہوں نے اپنا دور اقتدار پورا کرنا تھا۔ کیا نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی اپنی باری لینے تک محدود تھی اور کیا مسلم لیگ ن کو جمہوریت کی مضبوطی کا خیال صرف مشکل وقت پڑنے پر ہی آتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن یاد رکھیں کہ اگر انہوں نے میثاق جمہوریت کی تجدید نہ کی تو بہت جلد وہ اس شعر کی تصویر بنی نظر آئیں گی۔
آ عندلیب مل کہ کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل

تازہ ترین