• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلوم نہیں ہمارے میڈیا کو کیا ہوگیا ہے ، سیاست اور جرائم کی خبروں سے باہر نہیں نکلتے ، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں کوئی دوسرے کام ہوتے ہی نہیں اور نہ ہی اچھے کاموں کو اُسطرح ہائی لائٹ کیا جاتا ہے جن کی معاشرے کی بہترتعمیر کیلئے ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح کے ایک اچھے کام کو عوام کے نوٹس میں لانا اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کی توجہ اس جانب مبذول کرانی ہے کہ جب تک اچھے کاموں کی بھاگ ڈور اچھے اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو نیک نامی ہوتی ہے ورنہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں ایسے اچھے کام بھی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔
مجھے گزشتہ دنوں اپنی ایک عزیزہ کی تیماری داری کیلئے لاہور کے جنرل اسپتال میں کئی دن جانے کا اتفاق ہوا ۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ جنرل اسپتال نیوروسرجری کے حوالے سے جانا جاتا ہے نیورو سرجری کی اسپیشلٹی میں یہ پاکستان کا واحد اسپتال ہے جہاں نیورو سرجری کے سب سے زیادہ مریضوں کا علاج ہوتا ہے، اور بیڈز کے لحاظ سے پورے ایشیا میں نمبر1اور دنیا میں تیسرا بڑااسپتال ہے ،جِسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کہا جاتا ہے (PINS)۔ یہ نروس سسٹم کے مریضوں کیلئے مخصوص ہے، جہاں نروس سسٹم کے دس مختلف ڈسپلن ہیں۔ جنرل اسپتال کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں زیادہ تر ایم ایس اور پرنسپل وہ آتے رہے جن کا تعلق نیوروسرجری سے رہا اور ان کی کوششوں سے 1985ء میں جنرل اسپتال کے اندر نیورو سرجری کے ایک خود مختار ادارے کی منظوری دی گئی اور اس کیلئے 30کینال اراضی مخصوص کردی گئی لیکن درمیان میں کچھ عرصہ وہ ایم ایس اور پرنسپل آئے جن کا میڈیسن یا دیگر شعبوں سے تعلق تھا تو انہوں نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی اور اسی عمارت میں دیگرشعبے بنا دیئے گئے مگر ہائیکورٹ کی مداخلت سے ایسا کرنا ممکن نہ ہو سکا اور اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ شریف نے وزیراعلیٰ کوہدایت کی اور یہ عمارت واپس دلوائی گئی ۔ کیونکہ یہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کا بھی ویژن تھا جنہوں نے پھر 2012ء میں اسکے فیز ٹو کی نہ صرف منظوری دی بلکہ اب تک اس نیوروسرجری انسٹیٹیوٹ پر 25ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں ، فیز تھری میں ایک ارب روپے کا سامان لایا جائیگا اور دس کینال میں مزید توسیع کی جائیگی۔
ایسا نیورو سرجری کا ادارہ جو پنجاب بھر بلکہ پاکستان بھر کیلئے ہو ،جہاں ہاکستان بھر کے دو تہائی مریضوں کا علاج ہوتاہو، وہ موجودہ پرنسپل جن کا نیورو سرجری سے تعلق نہیں اُن کے ہاتھوں مبینہ طور پر یرغمال بنا ہوا ہے۔ یہ ایسے گمبھیر مسائل سے دو چار ہے کہ اس اسپتال کی دنیا میں جو حیثیت ہے وہ خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔ نیورو سرجری کیلئے صرف 20رومز ہیں جنکی اوپی ڈی (OPD) نیورالوجی شعبے سے منسلک ہے ۔ کوئی پرائیویٹ رومز نہیں ، 700ڈاکٹرز کیلئے صرف ایک ہاسٹل ہے، اکثریت باہر رہنے پر مجبور ہیں۔ پُرانی انجیو گرافی مشین اپنی لائف مکمل کرچکی ہے ۔ پنجاب بھر کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں (PET Scan) پیٹ اسکین نہیں جو کینسر کی تشخیص کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نیورو سرجری میں ٹیومر نکالنے کیلئے جو ’’ گاما نائف ‘‘ اور ’’سائبر نائف ‘‘اوزار ہوتے ہیں وہ تک نہیں۔ پھر سالانہ آنیوالے پانچ ہزار مریضوں کیلئے صرف تین الیکٹو اور دو ایمرجنسی آپریشن تھیٹر ہیں حالانکہ اتنے مریضوں کیلئے 8الیکٹو تھیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ PINS میں کوئی نیور و آن کالوجی ڈیپارٹمنٹ نہیں جبکہ ملک میں جس طرح برین ٹیومر کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کیلئے نیورو آن کالوجی شعبے کے قیام کی سخت ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں نیورو سرجری پروسیجر میں یہ بانی ادارہ ہے ۔ لیکن اسٹاف کی کمی کی وجہ سے کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ 20وینٹی لیٹرز میں سے صرف ایک کام کررہا ہے اور ان کیلئے وہ پارٹس فراہم کئےجارہے ہیں جن کی وجہ سے اموات کی شرح بڑھ گئی ہے ، پانچ مہینوں سے نیورو سرجری کی ڈرلز خراب ہیں، تین میں سے صرف ایک مائیکرو ا سکوپ کام کر رہا ہے۔ بیڈ ہیں تو وہ ٹوٹے ہوئے ہیں، نیورو سرجری کیلئے جو سی ٹی ا سکین خریدا گیا وہ ریڈیالوجی میں لگا دیا گیا ۔ جہاں سوائے نیورو سرجری کے ہر قسم کے سی ٹی ا سکین ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر تک کمیشن جاتی ہے ۔ 2011ء میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پہلا ایکیوٹ ا سٹروک سنٹر (Acute Stroke Center) قائم کر نے کی منظوری دی تھی لیکن چھ سال گزرنے کے بعد بھی قائم نہیں کیا گیا ۔ اس کا جو سامان تھا وہ ریڈیالوجی کو دے دیا گیا حالانکہ اسپتال میں نیورو ریڈیالوجسٹ کا ایک ماہر موجود ہے ۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ جو سامان خریدا گیا وہ مارکیٹ کے ریٹس سے بہت زیادہ پر تھا PINSمیں وارڈ نمبر20جو ایک آئیڈیل وارڈ جانا جاتا تھا اس کو ختم کر کے اسے گیسٹرالوجی وارڈ میں تبدیل کر دیا گیا۔ کیوزا(Cusa) جو برین ٹیومر (Suck)کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے یہ صرف ایک لاکھ میں ٹھیک ہوتا ہے مگر اس کیلئے فنڈز ہی جاری نہیں کئےجارہے اور خراب پڑا ہے ۔ ایک سی ٹی اسکین برین کیلئے تھا جب اس کو لگانے والی کمپنی نے دیکھا کہ یہ دوسرے کاموں کیلئے استعمال ہورہا ہے تو اس نے پرنسپل کو خط لکھا کہ اس کا غلط استعمال بند کیا جائے لیکن یہ عمل اُسی طرح جاری ہے۔ ایک تھری ٹیسٹ والا نیا ایم آئی آر آنا تھا جس کو پرنسپل نے میڈیکل وارڈ میں لگوانے کی کوشش کی مگر وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کی خصوصی مداخلت سے اصل جگہ پر لگایا گیا لیکن اس پر برین ٹیسٹ کی بجائے دوسرے کام شروع کر دیئے گئے۔
میں نے بات شروع کی تھی کہ میں اپنی کسی عزیزہ کی تیمارداری کیلئے اسپتال گیا ۔ویسے تو میں وہاں جا کر خوش بھی ہوا کہ سرکاری ادارے میں بڑی سہولتیں موجود ہیں مگر میرے ایک ہفتے کے وزٹ نے اس کی اصلیت کے کئی پرت میرے سامنے کھول کر رکھ دیئے ۔ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ’’ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز ‘‘ آپکا ویژن ہے ، آپ نے اس کیلئے بہت زیادہ فنڈز بھی مختص کئے مگر اس کا جس طرح غلط استعمال ہورہا ہے اور قوم کے اس پیسے پر جس طرح ڈاکہ ڈالا جارہا ہے کل بدنامی آپ کی ہی ہوگی۔ اسلئے جو چیز جس مقصد کیلئے بنائی گئی اُسی مقصد کے تحت استعمال میں آنی چاہئے کیونکہ بلڈنگ کے اداروں نے رپورٹس دیں کہ وارڈ نمبر16,15اور 17کی بڑی خستہ حالت ہے جبPINSمکمل ہوجائے تو اس کو گرا دیا جائے، لیکن اس پر دس کروڑ روپے لگا دیئے گئے ، اگر تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرایا جائے تو یہ انکشاف سامنے آئیگا کہ ایساکیوں ہوا ۔ اسمیں کس کا کیا مفادتھا ، ٹھیکیدار کون ہے ؟ پھر یہ بھی معلوم ہو جائیگا کہ سیکرٹری صحت نے ایک جونیئر کو کیوں پرنسپل تعینات کیا جوپرائیویٹ پریکٹس بھی کرتا ہے اور جب ان خرابیوں کی نشاندہی ایک ڈاکٹر نے کی تو انہیں ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیور و سائنسز کا جو ماسٹر پلان ہے اُسکی خلاف ورزی کیوں کی جاری ہے ،اگر آپ واقعتا عوام کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر 2006ء کے اصل پلان کے مطاق PINSکو نہ صرف خود مختار ادارہ بنایا جائے بلکہ اس کا علیحدہ پرنسپل کسی ریٹائرڈ نیوروسرجن کو لگایا جائے تاکہ وہ اس ادارے کو اس کی اصل اسپرٹ کے مطابق چلا سکے ۔بدقسمتی ہے کہ وہ ادارہ جو دنیا بھرمیں ایک اچھی پہچان رکھتا ہے اس کی شناخت کو ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے، کیا ہم اچھے کاموں کو جاری نہیں رکھ سکتے!

تازہ ترین