• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ طبیعت میں حجاب سا پیدا ہوگیا ہے لیکن دوستوں کا اصرار بڑھتا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ میری تشویش میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ناموس رسالتؐ ہر مسلمان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ختم نبوتؐ پر ایمان کے بغیر کوئی شخص بھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح عشق رسولﷺ اور اہل بیتؓ کی محبت کے بغیر ایمان مکمل ہوتا ہے نہ مسلمانی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ تاریخی حوالے سے ا س خطے میں ناموس رسالتؐ کے پروانوں اور شہداء کی فہرست طویل ہے لیکن چند ایک اہم نام جو مجھے یاد آرہے ہیں وہ ہیں غازی عبداللہ شہید، غازی محمد صدیق شہید اور غازی عبدالرشید شہید جس نے دسمبر1926میں گستاخ رسول سوامی شردھانند کو قتل کردیا تھا۔ 1933میں غازی عبدالقیوم شہید نے کراچی میں ایک ہندو گستاخ رسول کا خاتمہ کیا لیکن ہم لاہوریوں کو غازی علم دین شہید سب سے زیادہ یاد رہتے ہیں کیونکہ وہ لاہور میں دفن ہیں اور انہوں نے مشہور گستاخ رسول راج پال کو 1929میں قتل کیا تھا۔ ان کا مقدمہ قائد اعظم نے لڑا لیکن انگریز حکومت نے پریوی کونسل تک ان کی سزائے موت بحال رکھی۔علامہ اقبال کے حوالے سے یہ فقرہ مشہورہے کہ جب ان کو علم دین کے ہاتھوں راج پال کے قتل کی خبر پہنچی تو بے ساختہ فرمایا’’اسی گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا‘‘ (ہم باتیں کرتے رہ گئے اور ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا)۔ میں نے کچھ بزرگ صحافیوں سے یہ بھی سنا ہے کہ غازی علم دین شہید کے جنازے میں لاکھوں مسلمان شریک ہوئے تھے اور اسے لحد میں اتارنے والوں میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ راج پال پبلشر نے جب گستاخانہ کتاب چھاپی تو مسلمانوں نے اس کے خلاف مقدمہ کیا لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس دلیپ سنگھ نے راج پال کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ مجلس خلافت نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا چاہی تو اس ضمن میں برکت علی ہال میں اجلاس ہوا جس میں علامہ اقبال نے گستاخانہ کتاب کی شدید مذمت کرتے ہوئے مجلس خلافت سے درخواست کی کہ وہ سول نافرمانی کی تحریک ملتوی کردیں کیونکہ اس مرحلے پر یہ تحریک مسلمانوں کے مفاد میں نہیں۔ علامہ اقبال کے اس مشورے پر آج بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ملک میں لاقانونیت نے غلبہ پالیا ہے، ہنگاموں کی آگ پھیلتی جارہی ہے، سڑکیں بند اور زندگی معطل ہوچکی ہے، ملک میں سول وار کی فضا بن رہی ہے کیا یہ خطرات میں گھرے پاکستان کے مفاد میں ہے؟ ملک ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک مصدقہ خبر کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں را، سی آئی اے اور افغان انٹیلی جنس کی خفیہ ملاقات میں دہشت گردوں کو25ملین ڈالر اور ہتھیار دیئے گئے ہیں اور انہیں پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کا کام سونپا گیا ہے۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ اس میٹنگ میں بلوچستان علیحدگی پسند لیڈروں کے ساتھ مولوی فضل اللہ نے بھی شرکت کی۔ بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں پولیس اور فوج کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ مقصد اول تو سی پیک کاراستہ روکنا اور دوم پاکستان کو اندرونی طور پر اس قدر کمزور اور غیر مستحکم کردینا ہے کہ وہ امریکی مطالبات کے سامنے سرجھکا دے۔ ہندوستان کی حکمت عملی جہاں پاکستان میں سول وار شروع کراکے بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کو مضبوط بنانا ہے وہاں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی سے توجہ ہٹانا اور اسے دبانا ہے۔ صورتحال ہر پاکستانی کے لئے باعث تشویش ہے ،البتہ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس شہیدوں اور عاشقان رسولؐ کی سرزمین میں پارلیمنٹ جیسے مقتدر ادارے کو انتخابی قوانین کی آڑ میں’’حلفیہ بیان کرتا ہوں کو اقرار کرتا ہوں‘‘ اور بعض دوسری ترمیمات کی کیا ضرورت تھی؟ اب وزارت داخلہ حکومتی پوزیشن کی وضاحت پر کروڑوں روپے کے اشتہارات دے رہی ہے جنہیں پڑھنے سے تاثر ملتا ہے کہ اس جسارت میں ساری پارلیمنٹ شامل تھی۔ اراکین پارلیمنٹ نے آنکھیں بند کرکے ووٹ دئیے اور جب سینیٹ میں حافظ حمد اللہ نے نشاندہی کی تو اس کے خلاف اکثریت نے ووٹ دے دئیے۔ کیا اراکین پارلیمنٹ کو علم نہیں تھا کہ یہ کتنا حساس اور اہم ایشو ہے۔ کیا وہ بھول گئے تھے کہ1953میں اینٹی احمدیہ تحریک کے دوران تقریباً دو ہزار افراد مارے گئے تھے البتہ مرنے والوں میں کوئی اہم ’’مولانا‘‘ شامل نہیں تھے۔ اسلام آباد دھرنے کو ہٹانے میں چھ یا آٹھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سارے ملک میں غم و غصے کی آگ پھیلتی گئی۔ انا اور تکبر کی ماری حکومت ایک وزیر سے مصلحت کے تحت مفاد عام میں استعفیٰ لے لیتی تو کیا فرق پڑتا؟ ویسے تو وزیرداخلہ کا یہ اعتراف کہ انتظامیہ نے یہ ایکشن خود کیا اور وہ اس کا حصہ نہیں تھے خود ان کے استعفے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ پرویز رشید یا مشاہد اللہ سے استعفیٰ لینے سے کیا حکومت کی سبکی ہوئی تھی؟ دیکھا جائے تو ہماری موجودہ پارلیمنٹ بھی خوب ہے۔ ایک طرف ختم نبوتؐ کے حوالے سے ترامیم آنکھیں بند کرکے قبول کرلیں اور دوسری طرف انتخابی فارم میں اقامہ، دوہری شہریت اور اثاثوں سے متعلقہ شقیں اڑا کر اپنے آپ کو احتساب سے آزاد کرلیا۔ اب پی پی پی سے دوستی کے احیاء کی کوششیں جاری ہیں تاکہ آئین کی شقوں62/63کو ختم کیا جاسکے۔ میں نے پاناما کے فیصلے کے حوالے سے اگست میں لکھا تھا کہ اب مسلم لیگ(ن) نہ صرف ہر اس قانون اور شق کو ختم کرے گی جو ان کے لیڈر کے لئے وبال اقتدار بنا بلکہ اگر موقع ملا تو وہ عدلیہ کے دائرہ اختیار کو بھی محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔ مطلب یہ کہ موجودہ پارلیمنٹ نے اس قانون سازی سے اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے اور ختم نبوتؐ کے حوالے سے ترامیم کی جسارت کرکے اپنے ووٹ بینک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ دھرنے والوں کے سیاسی عزائم تھے اور وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان کرچکے ہیں، چنانچہ یہ احتجاج طاقت کا اظہار بھی تھا اور حکمرانوں کے لئے خطرے کا الارم بھی۔ شاید اسی لئے پنجاب حکومت نے دھرنا کارواں کو روکنے کی کوشش نہیں کی اورخادم اعلیٰ نے یہ بیان دے کر اپنے آپ کو سرخرو کرلیا کہ جس وزیر نے یہ جسارت کی ہے اسے نکال دینا چاہئے، البتہ پارلیمنٹ نے ترمیم کو واپس لے کر اور پرانا فارم بحال کرکے اچھا کیا لیکن تاخیر کی مرتکب ہوئی۔ افسوس کہ پاکستانی معاشرے میں عفودرگزر، برداشت، حسن اخلاق، نرم خوئی اور دیگر دینی قدریں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ ہم عشق رسولﷺ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن نہ سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی سیرت نبویؐ سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ کیسا عشق ہے جو ہمارے کردار، اخلاق، رویے، سوچ اور عمل کو تبدیل نہیں کرتا بس صرف زبان سے اظہار پاتا ہے۔ یہ سطحی عشق ہے، سچا عشق نہیں۔ عشق سچا ہو تو ہم اپنے آپ کو سیرت النبیﷺ کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں اور سنت نبوی ﷺپر عمل کریں۔
ہم نے آج تک یہی دیکھا ہے اور یہ میرا ایمان بھی ہے کہ جس نے ناموس رسالتؐ اور حرمت رسولﷺ کے حوالے سے کوئی جسارت کی وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوا اور آخرت میں بھی دردناک انجام اس کا منتظر ہوگا۔ آخر میں دھرنے والوں، لبیک یا رسول ؐاللہ کا دل پذیر ورد کرنے والوں اور عشق رسولﷺ کا دعویٰ کرنے والوں سے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ذرا غور کریں، اپنے آپ پر نگاہ ڈالیں اور سوچیں کہ کیا ان کی شخصیات، ان کے لیڈروں کی شخصیات،کردار اور قول و فعل پر سیرت النبیؐ کا عکس یا نور نظر آتا ہے؟ کسی ایسے ہی موقع پر علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوںنے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

تازہ ترین