• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں دھرنے کے خاتمے کا اعلان ہو چکا ہے، یہ اعلان ایک معاہدے کے بعد ہوا ہے فیض آباد دھرنے کے خاتمے کیلئے معاہدہ کروانے و الی ہستی کا نام اور کام فیض تقسیم کرنا ہے ۔یہ معاہدہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خصوصی ہدایات کے بعد طے پایا کیونکہ خادم حسین رضوی سیاسی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔چلو اچھا ہوا، معاہدہ ہو گیا، زاہد حامد کا استعفیٰ بھی آ گیا اور بہت کچھ آ جائے گا مگر چند روز ہ حالات میں حکومت نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی ایسے حالات بنانے کی کیا ضرورت تھی ، مجھے دو منظر نہیں بھولتے پہلے منظر میں پسپا ہوتی ہوئی سپاہ، عاشقانِ نبی ؐ کے جذبے کے سامنے ایسے بھاگ رہی تھی جیسے ہارے ہوئے لشکر جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہوں وہ تمام مناظر اب بھی آنکھوں کو یاد ہیں کہ ایف سی اور پولیس کے اہلکار بکھرے ہوئے ایسے بھاگ رہے تھے جیسے تنکے تیز آندھیوں کے سامنے بھاگتے ہیں۔یہ حملے کا دوسرا منظر ہے پہلا منظر ذرا عجیب ہے پہلے منظر میں سرکاری اہلکار ڈنڈوں، گولیوں، ٹھڈوں اور آنسو گیس کے شیلوں سے حملہ آور ہوئے اس منظر میں راہ عشق رسول ؐ کے مسافروں پر ڈنڈے برسائے گئے جو چہرے درود پڑھتے تھے ان پہ ٹھڈے مارے گئے بوڑھوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں ایک اسلامی ریاست میں پونے چودہ سو سال بعد خیمے جلائے گئے، پھر یہ منظر جلد بدل گیا منظر کی اس تبدیلی میں اللہ کی خاص رحمت شامل حال تھی عاشقان محمد ؐ کا غیر متزلزل جذبہ تھا ان کروڑوں انسانوں کی دعائیں بھی شامل تھیں جن کی آنکھیں حضورؐ کی یاد میں تر رہتی ہیں ۔منظر بدلا اور پھر بدلتا چلا گیا ،نواز شریف کی ’’تجربہ کار ٹیم ‘‘ نے اپنی نااہلی سے فیض آباد دھرنے کے فیض کو فیض عام بنا دیا، بس پھر لمحوں میں پورے راولپنڈی شہر میں عاشقان نبی ؐ ہر سڑک ، ہر چوراہے پر موجود تھے تھوڑی سی دیر کے بعد پورا ملک جام ہو چکا تھا ہر طرف شمع رسالت ؐ کے پروانے نظر آ رہے تھے ۔پوری حکومت بے بس، بالکل لاچار نظر آئی ۔ملکی امور چلانے کے دعوے کرنے والے نااہلوں نے پسپائی کے سارے منظر چھپانے کیلئے میڈیا کا گلا دبا دیا ، 25نومبر کا دن بدترین آمریت کا دن تھا یہ جمہوریت کے منحوس چہرے میں چھپی آمریت کا دن تھا ، آزادی اظہار کے گیت گانے والے سارے نغمے بھول گئے ،تمام ٹی وی چینلز کی بندش حکومتی بے بسی، نااہلی اور نالائقی کی واضح دلیل تھی، سوشل میڈیا پر پابندیاںآمریت کی تصویر سے کم نہ تھیں، دوسری طرف دھرنے میں لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی، فیض آباد میں شام کو ہجوم دیکھنے کا اتفاق ہوا تو آنکھوں نے دیکھا کہ تا حد نگاہ انسانوں کے جذبے جاگ رہے تھے۔ طاقت ہار گئی، جذبہ جیت گیا، عقل ہار گئی، عشق جیت گیا۔ محمدؐ کے قدموں کی خاک پہ جان نچھاور کرنے والوں نے ہر شہر میں جگہ جگہ محفلیں سجالیں۔
26نومبر کو وہ اپنی باتوں سے مکر گیا جو بڑی رعونت سے کہہ رہا تھا ’’تین گھنٹے میں آپریشن کر لیا جائے گا‘‘ کئی گھنٹے گزر گئے، اب وہ کہتا ہے کہ ’’آپریشن میرے حکم پر نہیں ہوا، میں تو لاعلم تھا‘‘ لاعلموں کی داستان کیا بیان کروں جنہوں نے محمدؐ کے ماننے والوں کے دیس میں عقیدہ ختم نبوت کو ختم کرنے کی کوشش کی، سمجھ دار مسلم لیگیوں نے خود کو الگ کر لیا، 26نومبر کو کئی اراکین اسمبلی نے کہا کہ ’’ہمارا نااہل نوازشریف سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
اس تمام صورتحال میں فوج کا کردار شاندار رہا، کہا کہ ہم اپنے شہریوں پر تشدد نہیں کرسکتے، آرمی چیف نے تو جاتی امراء میں مسلسل حاضری دینے والے شاہد خاقان عباسی سے کہا کہ تشدد سے پرہیز کیا جائے۔ اب پرانے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ ’’احسن اقبال کی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی، اب وہ اپنی ناکامیاں کبھی کسی کے سر تھوپ رہے ہیں تو کبھی کسی کے سر‘‘۔
26نومبر کی شام میرا ایک عرب دوست مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ’’تمہاری پارلیمنٹ کو شرم آنی چاہئے، جس نے ایسی گھنائونی حرکت کی، تمہارا وزیراعظم اور تمہارے وزراء مستعفی کیوں نہیں ہوئے، ان لوگوں نے کس کو خوش کرنے کیلئے یہ کام کیا تھا؟‘‘ میرے عرب دوست نے کئی اور باتیں کیں، ان باتوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ سارا رستہ اس کےسارے سوال مجھے بار بار روکتے رہے اور میں سیدھا بودی شاہ کے پاس چلا گیا۔
بودی شاہ کے پاس پہنچا، رات گئے آمد پر میرا دوست بالکل حیران نہ ہوا بلکہ کہنے لگا کہ کیا صورت حال ہے؟ میں نے بودی شاہ سے کہا آپ سنائیں شاہ جی! وہ کچھ دیر خاموش رہا ۔ اور پھر بولا ’’ہم نے 68سال عقیدہ ختم نبوتؐ کی جنگ برصغیر میں لڑی، اس گستاخ نے 1906ء میں یہ حرکت کی اور وہ1908ء میں مر گیا مگر ہماری جنگ جاری رہی، ہم نے مسلمانوں کیلئے 1947ء میں الگ وطن حاصل کیا، ہماری جدوجہد جاری رہی، بالآخر 1974ء میںہم کامیاب ہوگئے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا، بھٹو عظیم آدمی تھا، وہ یہ سنہرا کا م کر گیا، بھٹو نے دوسرا اہم کام یہ کیاکہ اس نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ابتدا کی۔ آپ کو یاد ہے کہ جمعہ کی چھٹی نوازشریف نے ختم کی، آپ کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2013ء کے بعد پنجاب بھر میں درود وسلام پر پابندی لگائی گئی تھی اور اب یہ ایسا وار کیا گیا کہ عاشقان محمدؐ کے دل زخمی ہوگئے۔ این اے 120 میں بیس پچیس ہزار ووٹوں کی محبت، مغربی دنیا کو خوش کرنے کی چاہت، پتہ کرو کس نے کس کو خط لکھے، پس پردہ کون کون ہے؟ پیر منور حسین جماعتی تمہارا دوست ہے، وہ آپ کو بہت کچھ بتا دے گا، مجھے پتہ ہے کہ تمہارے پر دادا نواب علی کی پیر جماعت علی شاہ سے دوستی تھی مگر مجھے یہ تو بتائو کہ کیاہم نے ملک اس لئے حاصل کیا تھا کہ عاشقان محمدؐ پر لاٹھیاں برسائی جائیں، کیاپاکستان اسلام کا قلعہ اس لئے ہے کہ یہاں عقیدہ ختم نبوت کو بدل دیا جائے؟اس وقت جب حالات کشیدہ ہیں حکمرانوں کی نااہلیوں کے باعث ملک جام ہے حیرت ہے نااہل اب بھی حکمران ہیں، کیا تم عشق نبی ؐ بھول گئے ہو ؟تم سے میں خاص طور پر پوچھتا ہوں کیونکہ تمہارا مرشد تو روحانی سلسلے میں علامہ اقبالؒ کا چھوٹا بھائی ہے، تم نے کیا کیا؟.....‘‘
بودی شاہ نے بہت سے سوالوں کا رخ میری طرف موڑا تو میں نے عرض کیا شاہ جی !میں قلم سے جہاد کر رہا ہوں، محمد ؐ سے عشق کرنے والوں کے لئے بولتا بھی ہوں، لکھتا بھی ہوں، میں کسی شکم پرست سیاسی مولوی کی طرح دین بیچتا نہیں ، عشق نبی ؐ کی یاد میں جلنے والے چراغوں میں رہتا ہوں، میری جان خاک پائے محمد ؐ پر قربان، میں عاشقان محمدؐ کا خادم ہوں، راہ عشق کا مسافرہوں، ہر دم محمد ؐ اور اہل بیتؓ کی محبت میں رہتا ہوں، دنیا کی دولت سے رغبت نہیں رکھتا ،اقبال ؒ کے اشعار میرے لئے مشعل راہ ہیں مجھے معلوم ہے کہ سب جہان محمد ؐ کیلئے بنائے گئے خالق کائنات اور اس کے فرشتے دن رات کے ہر لمحے میں درود پڑھتے رہتے ہیں، میرا نبی ؐ سب جہانوں کیلئے رحمت ہے اس جیسا کوئی نہیں ، کوئی نہیں، وہ تو محبوب خدا ہے میرے جیسے کروڑوں انسان خاک پائے محمد ؐ کے بوسے لیتے رہتے ہیں ،عشق میں آنکھیں آنسوئوں سے تر رکھتے ہیں،میں کبھی قبر اور حشر کو نہیں بھولا، میرے پاس دونوں جہانوں میں حب رسول ؐ اور حب اہل بیت ؐکے علاوہ کچھ نہیں، یہ محلات ، یہ دولت ، یہ حکمرانیاں یہیں رہ جائیں گی، اقبال کے اس شعر کا قائل ہوں کہ
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے

تازہ ترین