• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاہدہ ہو گیا۔ استعفیٰ بھی مل گیا۔ دھرنے بھی ختم ہو گئے۔ لیکن ان دو ڈھائی دن میں پورا ملک جس عذاب میں مبتلا رہا اس کا حساب کون دے گا؟ دھرنے والوں نے دھرنا دیا، ایک ایسے مسئلے پر جو پہلے ہی حل ہو چکا تھا۔ حکومت ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن وہ جا نتی تھی کہ اس کی بات نہیں مانی جا ئے گی۔ اور یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا۔ اس کے باوجود وہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتی رہی۔ آخر وہی ہوا جو دھرنے والے چاہتے تھے۔ اب سوال یہ کیا جا سکتا ے کہ یہاں حکمرانی کس کی ہے؟ یہاں کس کا حکم چلتا ہے؟ کیا یہاں بے قابو ہجوم جب چاہے اور جو چاہے وہ کرا سکتا ہے؟ یہ ہجوم پورے ملک کو یرغمال بنا سکتا ہے؟ حکومت کی حکمرانی کا تیاپانچا کر سکتا ہے؟ اب یہ بحث جانے دیجئے کہ یہ دھرنا جب شروع ہوا تھا تو اس وقت کوئی موثر قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ مگر جب قدم اٹھا لیا گیا تو ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ میری مرضی سے یہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سبحان اللہ، کیا کہنے ہیں۔ تو پھر وزیر داخلہ ہیں کس کام کے؟ اور یہ ٹی وی چینل کیوں بند کئے گئے تھے؟ اس سے جن افواہوں نے جنم لیا اس نے پورے ملک کو ذہنی خلجان میں پھنسا دیا تھا۔
لیکن ہم تو اس وقت آپ کو اس تکلیف، اس اذیت اور اس عذاب کی ایک جھلک دکھانا چاہتے ہیں جس نے اتوار کی صبح سے پیر کے دن فجر کی اذانوں تک ہماری ہڈی پسلی ایک کر دی۔ ہم جمعہ کی صبح فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں شرکت کرنے وہاں گئے تھے۔ دو دن فیسٹیول میں شریک ہونے کے بعد اتوار کی صبح لاہور واپسی کی ٹھانی۔ یوں تو سنیچر کی صبح ہی ٹیلی وژن پر دیکھ لیا تھا کہ دھرنے والوں کے خلاف آپریشن شروع ہو گیا ہے لیکن یہ ہمارے سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاہور جانے کے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ صبح آرام سے نہا دھو کر اور اچھا سا ناشتہ کر کے لاہور کی جانب روانہ ہوئے۔ موٹر وے پر پہنچے تو راستہ بند۔ سڑک پر لاٹھیاں اٹھائے ہجوم کا قبضہ۔ آگے بڑھو گے تو لاٹھیاں برسیں گی۔ تم اگر بچ بھی گئے تو گاڑی کی خیر نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا۔ ہمارے ساتھ تھے پروفیسر نجیب جمال۔ وہ بولے واپس فیصل آباد چلو۔ ڈرائیور مصر کہ یہیں کہیں ٹھہر جاتے ہیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سفر کر کے یہاں تک پہنچے ہیں، دو تین گھنٹے میں راستہ کھل جائے گا تو چل دیں گے۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ موٹر وے سے نیچے کچے راستے پر اصغر ندیم سید اور شیبا سید کی گاڑی نظر آئی۔ انہوں نے کہا ہمارے پیچھے پیچھے چلے آئو۔ ہم کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ جائیں گے۔ مگر ہمارا ڈرائیور نہیں مانا۔ گاڑی کرائے کی تھی، ہم اسے مجبور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مگر ہوا وہی جو دھرنے والے چاہتے تھے۔ ہار کے جھک مار کے ہم فیصل آباد چل دیئے۔ دوپہر کے ڈھائی بجے واپس پہنچے۔ سوچا کل سویرے سویرے نکل کھڑے ہوں گے۔ اس وقت تک دھرنے والے نیند کے مزے لے رہے ہوں گے۔ مگر وہی ڈرائیور جو صبح کچے راستے پر جانے کو تیار نہیں تھا تیسرے پہر پانچ بجے خبر لایا کہ جی ٹی روڈ کھل گئی ہے، اب چلے چلیں۔ لیکن ہماری میزبان سارہ حیات کا فون آیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رات کو گیارہ بجے نکلیں گی۔ تم بارہ بجے تیار رہنا۔ راستہ کھلا ہوا تو وہ فون کر دیں گی۔ تم بھی روانہ ہو جانا۔
اب ہماری آزمائش شروع ہوئی۔ نجیب جمال اسے ایڈونچر کہتے ہیں۔ ہدایت کے مطابق جی ٹی روڈ پر ہماری گاڑی روانہ ہوئی۔ ابھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہی چلے ہوں گے کہ راستہ بند۔ لاٹھیاں لئے چند لوگ کھڑے ہیں۔ راستہ روک رکھا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان سے بات کر سکے۔ بات کرنے کا مطلب تھا لاٹھی کھانا۔ اور گاڑی کے شیشے تڑوانا۔ پکی سڑک چھوڑ کچا راستہ پکڑا۔ اب گاڑی اور ہم جھولا جھول رہے ہیں۔ کبھی اوپر، کبھی نیچے۔ کھایا پیا سب منہ میں آ رہا ہے۔ ایک گائوں آیا۔ نیند میں ڈوبا ہوا گائوں۔ دوسرا گائوں آیا۔ اور پھر کھیت اور ٹوٹے پھوٹے راستے۔ دور دور آدم نہ آدم زاد۔ کس سے معلوم کریں کہ یہ راستہ آگے جا کر جی ٹی روڈ سے مل جائے گا؟ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ سامنے کاریں، ویگنیں اور ٹرک واپس مڑتے نظر آئے۔ آگے راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ چلو پیچھے چلو۔ ہم بھی پیچھے چلے۔ اور کچے راستوں پر جھکولے کھاتے چلتے ہی گئے۔ اچانک معلوم ہوا کہ یہ تو جی ٹی روڈ کی طرف جانے والا راستہ نہیں ہے۔ سامنے گھپ اندھیرا۔ صرف ٹرکوں کی ہیڈ لائٹس کی روشنی۔ اب پھر رخ بدلو۔ کبھی دائیں کبھی بائیں۔ کچھ معلوم نہیں کدھر جا رہے ہیں۔ ایک جانب چلتے ہیں۔ امید بندھتی ہے کہ اب صحیح راستہ پر آ گئے ہیں۔ مگر اچانک نظر آتا ہے کہ آگے تو راستہ بند ہے۔ امید بندھتی ہے، ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر امید بندھتی ہے اور پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ نجیب جمال کو یگانہ چنگیزی کا شعر یاد آ جاتا ہے ؎
امید و بیم نے مارا مجھے دو راہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
جی ہاں، ہماری یہی حالت تھی۔ ابھی خوش ابھی مایوس۔ مگر ہمارے ہاتھ میں کچھ تھا بھی تو نہیں۔ کتنے گائوں دیکھے۔ کتنے راستے ناپے۔ گھڑی دیکھی۔ معلوم ہوا پانچ گھنٹے ہو گئے ہیں دھکے کھاتے۔ اب ایک گائوں میں چند آدمی نظر آئے۔ ان سے پوچھا یہ راستہ ہمیں کہاں پہنچائے گا؟ کیا ہم ادھر سے لاہور کا راستہ پکڑ پائیں گے؟ انہوں نے کچھ بتایا، ہم چل پڑے۔ مگر آگے راستہ بند۔ واپس مڑے۔ کچھ دور چلے۔ دیکھا کہ ٹرک اور گاڑیاں واپس آ رہی ہیں۔ اب دایاں راستہ پکڑا۔ معلوم ہوا یہ شرق پور کا راستہ ہے۔ خوش ہوئے کہ اپنے دوست، اپنے بھائی اور اپنے پڑوسی ملک مقبول صادق کا آبائی شہر آ گیا۔ مگر شرقپور تھا کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ پوچھا کہ شرق پور ابھی تک نہیں آیا؟ جواب ملا کہ وہ تو پیچھے رہ گیا۔
اب ہم لاہور کے قریب تھے۔ ڈرائیور نے ہمت کر کے پکی سڑک پر گاڑی ڈال دی۔ دور سے دیکھا کہ سامنے لاہور جانے والے چند ٹرک اور کاریں کھڑی ہیں۔ ڈرائیور اور اس کے ساتھ بیٹھا لڑکا معلوم کرنے گئے کہ یہ کھڑے کیوں ہیں؟ ہم بھی نیچے اتر آئے۔ ابھی ہم نے ایک دو قدم بڑھائے ہی تھے کہ ڈرائیور اور وہ لڑکا بھاگتے ہو ئے واپس آئے۔ ’’آپ کیوں اتر آئے؟ سامنے دو نوجوان پستول تانے کھڑے ہیں‘‘ اب سب گاڑی میں بیٹھے اور پیچھے بھاگے۔ ’’یہ گاڑیاں لوٹ رہے ہیں‘‘ ڈرائیور نے بتایا۔ حیرت یہ ہوئی کہ کسی بھی بند راستے پر پولیس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ سب کچھ دھرنے والوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اب جو چلے تو حالت یہ تھی کہ ہمیں پہلے دائیں ہاتھ پر اور پھر بائیں ہاتھ پرموٹر وے نظر آ رہی تھی مگر ہم وہاں جا نہیں سکتے تھے۔ وہ اوپر تھی اور ہم نیچے۔ بیچ میں کھیت اور دیواریں۔ اب ڈرائیور کی چھٹی حس نے کام کیا۔ اور وہ خدا جانے کن اوبڑ کھابڑ راستوں سے ہوتا ہوا لاہور کی طرف نکال لایا۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ آخر پہنچ ہی گئے۔ ہڈی پسلی ٹوٹی تو کیا ہوا۔ گھر پہنچے تو فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ صبح اور رات کا وقت لگا کر یہ انیس بیس گھنٹے ہی تو بنتے ہیں؟ کہاں لاہور اور فیصل آباد کا دو گھنٹے کا فاصلہ اور کہاں یہ بیس گھنٹے۔ اچھا، تو یہ لٹریری فیسٹیول کیسا تھا؟ یہ اگلے ہفتے بتائیں گے۔

تازہ ترین