• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض آباد دھرنا ختم ہو گیا لیکن اپنے پیچھے ایسے بہت سے سوالات چھوڑ گیا جن کی تلخی مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی۔ خاص طور پر جس معاہدے کے تحت دھرنا ختم ہوا عقل سلیم شاید ہی اس کی معقولیت تسلیم کرنے پر آمادہ ہو۔ ریاست کی رٹ، حکومت کی اتھارٹی اور اداروں کی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی اس معاہدے پر اعتراضات اٹھائے جاتے رہیں گے اور قوم تشکیک و اضطراب میں مبتلا رہے گی۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں فوج کی نگرانی میں حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ قانون سے ماورا ایسا سمجھوتہ ہے جس کی رو سے ریاست کمزور ہوئی اور پرتشدد ہجوم غالب آیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اس معاہدے کی شرائط اور طریق کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جن پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنا کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ حکومت نے دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا اور اپنی ایک بھی بات نہیں منوائی اس طرح انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کیا۔ انہیں ایک سازش کے تحت ناکام کیا گیا۔ فاضل جج نے اس معامے میں عسکری کردار پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور دوسری باتوں کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا کہ قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کے دوران ہونے والا نقصان ریاست کیوں بھرے، دہشت گردی کی شقوں والے مقدمات کیسے ختم ہوں گے اور ججوں کو گالیاں دینے پر معافی کی شق معاہدے میں شامل کیوں نہیں کی گئی؟ معاہدے میں تمام صورت حال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا گیا ہے اور عدلیہ کے حکم پر جن حکام نے عمل درآمد کیا انہیں سزائیں دلانے کیلئے ایک انکوائری بورڈ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ان سکیورٹی اہلکاروں کے بارے میں جن میں ایف سی کے جوان بھی شامل ہیں کچھ نہیں کیا گیا جو دھرنا مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔ انہیں زخمی یا اغوا کرنے والوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ راستے بند کرنے اور حکومتی وزرأ کے گھروں پر حملے کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔ 6نومبر سے دھرنے کے اختتام تک جن سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا اس کا ازالہ بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی اور پولیس گاڑیوں کو آگ لگانے اور نجی و سرکاری املاک کو نذر آتش یا تباہ کرنے والوں کا کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا، دھرنے والوں کو جو اپنے خرچ پر احتجاجی تحریک چلانے کیلئے لاہور سے فیض آباد پہنچے تھے سرکاری خزانے سے واپسی کا کرایہ ادا کیا گیا۔ معاہدہ کی زبان سے پتہ چلتا ہے کہ اسے دھرنے والوں نے تیار کیااوروزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کے علاوہ عسکری نمائندے سے اس پر دستخط کرائے گئے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے خود اس معاہدے کو شرمناک قرار دیا ہے اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے حلف نامے میں ختم نبوت کے اقرار سے متعلق قانون کی تیاری میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ قانون تمام پارٹیوں کی 33رکنی پارلیمانی کمیٹی نے مرتب کیا۔ زاہد حامد کا کام صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا اور دونوں ایوانوںنے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر دھرنے والوں نے جب وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ کیا تو سیاسی پارٹیوں کو ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیئے تھا لیکن انہوں نے اس پر سیاست کی اور حکومت کو پھنسانے کی کوشش کی۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ ختم نبوت کا معاملہ ایک حساس مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے ایمان کی پہلی شرط ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا اقرار کرنے کے بعد ہی کوئی شخص اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ اس پر سخت موقف اختیار کیا ا ور اسے منوایا بھی دینی جماعت کے دھرنے کے دوران جس نے جو کچھ کیا اسے اس معاملے کی حساسیت کا اچھی طرح علم اور اس کے نتائج سے باخبر ہوناچاہئے تھا اور سب کو مل کر کام کرنا چاہئے تھا لیکن زمینی حقائق سے لگتا ہے کہ دھرنے کے حوالے سے سکیورٹی معاملات پر ادارے بٹے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج کے ریمارکس سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ نواز شریف کے خلاف فیصلے کی پذیرائی بھی ہوئی اور مخالفت بھی۔ اس سے بھی سوسائٹی کے تقسیم ہونے کا پتہ چلتا ہے، دھرنے کے معاملے سے نمٹنے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفاقی حکومت کی سوچ بھی الگ الگ تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ خود ارباب اقتدار بھی ایک صفحے پر نہیں۔ دنیا میں پہلے ہی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے، ہمارے اداروں اور ارباب اختیار کے فکر و عمل میں تضادات اس تاثر کو دور کرنے کی بجائے بدقسمتی سے اسے درست ثابت کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے مظاہرین کو پہلے اسلام آباد آنے دیا، پھر وفاقی حکومت کو نرمی اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ مسلم لیگ ن بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے کوئی کچھ کہتا ہے ا ور کوئی کچھ۔ ملک دہشت گردی کا شکار ہے، جس پر فوج نے بڑی حد تک قابو پایا ہے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر الگ خطرات منڈلا رہے ہیں، ان حالات میں پاکستان داخلی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ حکومت ہی کا نہیں اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ ملکی مفاد پر سیاست نہ کرے اور بیرونی ہی نہیں اندرونی خطرات کے مقابلے کے لئے بھی حکومت اور اپوزیشن باہمی مشاورت سے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلیں لیکن ایسا نظر نہیں آتا۔ دھرنا مظاہرین نے تین ہفتے تک وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کئے رکھا اور آخر میں پورے ملک کو مفلوج بنا دیا۔ اس پر فوج کی مداخلت آئین کے مطابق تھی یا نہیں لیکن اسے بلایا گیا تھااس نے دھرنا ختم کرا دیا۔ اس حوالے سے جو معاہدہ ہوا حکومت کو چاہئے تھا کہ اسے آئین و قانون کی روشنی میں انصاف کے تقاضوں کے مطابق مرتب کر اتی لیکن اس نے اپنی کوئی بھی شرط نہیں منوائی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھائی؟ مظاہرین نے جو روش اپنائی اور حکومت نے ان کے آگے ہتھیار ڈالے اس روایت سے دوسرے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اہل سیاست اور ارباب حکومت کو اس ساری صورت حال کا ادراک ہونا چاہئے ہمیںسوچنا چاہئے کہ عدم برداشت اور منافرت کو ختم کرنے اور قوم کے تمام اداروں کو ایک پیج پر لانے کی بجائے ہم انتشار و افتراق کے راستے پر تو نہیں چل رہے جو تباہی کے گڑھے کی طرف جاتا ہے؟

تازہ ترین