• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ملک میں دو قسم کے شہری ہیں، ایک وہ جو قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کسی آئین، قانون، ضابطے کو نہیں مانتے۔ قانون ماننے والوں میں بھی آگے کئی شیڈز ہیں، کوئی ٹیکس چوری کرتا ہے، کوئی ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی کرتا ہے، کوئی دفتر میں کام چوری کرتا ہے، کوئی بجلی گیس کے میٹر لگوانے کے لئے پیسے دیتا ہے، کوئی سرکار کی دی ہوئی مختلف رعایتوں سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور کوئی اپنے گھر کے آگے سڑک کے حصے کی زمین گھیر لیتا ہے۔ مگر یہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی بہرحال قانون کی ڈور سے بندھے ہیں، اس نظام کے بھلے یہ خلاف ہوں اور اسے نا انصافی اور استحصال پر محمول کرتے ہوں اور اس سسٹم کے خلاف اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بکواس بھی کرتے ہوں مگر اس کے باوجود یہ آئین، قانون، سرکار کے تابع ہیں۔ یہ ایک مہینہ بجلی کا بل نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جاتی ہے، بچے کے اسکول کی فیس نہ دیں تو بچوں کو اسکول سے نکال دیا جاتا ہے، گھر کے کرائے میں تاخیر ہو تو مالک مکان سامان اٹھا کر باہر پھینکوا سکتا ہے، کسی پلاٹ کی قسط لیٹ ہو جائے تو جرمانہ بھرنا پڑتا ہے، سرکار کے خزانے کو نقصان پہنچائیں تو انکوائری بھگتنا پڑتی ہے، ٹیکس چوری پکڑی جائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں، غرضیکہ گاڑی کے ٹوکن ادا کرنے سے لے کر عمارتی قوانین کے تحت مکان بنوانے تک یہ لوگ بادل نخواستہ ہی سہی مگر قانون پر رو دھو کے عمل کرتے ہیں یا یوں کہیے کہ ان سے عمل کروایا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک میں خوش دلی سے قانون پر عمل کرنے والے اچھے شہری موجود نہیں، ایسے لوگ کم یا زیادہ، بہرحال ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں مگر فی الحال ہم ایسے شرفا کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو سرے سے اس نظام کو ہی باطل سمجھتے ہیں، آئین، ریاست، حکومت، ادارے، کوڈ آف کریمنل پروسیجر نما چیزیں ان کے نزدیک خرافات ہیں، ان کے نظریئے کی رُو سے سرکاری احکامات کی روگردانی گناہ کے زمرے میں نہیں آتی، ملکی سرحدوں کو کاغذ پر کھینچی گئی ایک لکیر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اس لئے اسمگلنگ حلال اور ٹیکس حرام ہے۔ اِن لوگوں میں بھی البتہ آگے کئی شیڈز ہیں۔ یہ لوگ جو سرکار، ریاست اور آئین وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے اِن میں سے کچھ کو مجبوراً ملکی قوانین پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے کیونکہ آخر کو ملک میں رہنا بھی ہے مگر کچھ لاڈلے ایسے بھی ہیں جن پر کوئی ملکی قانون لاگو نہیں ہوتا، آئین کی تمام شقیں ان کے آگے بے بس ہیں، نیشنل ایکشن پلان بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ہمارے ادارے بھی ان کی ٹھوڑیاں پکڑ کر منت ترلا کرکے ہی اپنی عزت بچاتے ہیں۔ یوں تو یہ لوگ ہر قسم کی آزادی کے خلاف ہیں مگر خود انہیں تمام آزادیاں حاصل ہیں، مثلاً یہ کبھی ناراض ہو جائیں تو بازاروں میں دھماکے وغیرہ کرکے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہیں، کبھی فوجی جوانوں کی گردنیں کاٹ کر اُن سے فٹ بال کھیل کے دکھاتے ہیں، کبھی بچوں کو کھلونا بم بنا کر اڑاتے ہیں اور کبھی یونہی قتل عام کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ اِن میں سے جو ذرا کم غصیلے واقع ہوئے ہیں وہ فقط ملک کو مفلوج کرکے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، اس دوران اگر کوئی راہ چلتا بچہ ایمبولینس میں مر جائے یا ریاست کو دو چار ارب روپے کا نقصان پہنچے یا سرکاری اور نجی املاک نذر آتش کر دی جائیں، پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی جائے، عام لوگوں کی پراپرٹی تباہ کر دی جائے، دو چار سیکورٹی اہلکاروں کو مار دیا جائے تو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ یہ ریاست کے لاڈلے ہیں اور اِن کے جذبات کا خیال رکھنا سب سے افضل ہے۔ باقی شہری اگر آئین اور قانون پر یقین رکھتے ہیں، ضابطوں پر عمل کرتے ہیں، بجلی کے بل، ٹیکس، جرمانے اور سرکاری اداروں کی فیسیں بھرتے ہیں تو بھی وہ ہمارے اِن لاڈلے سپوتوں سے زیادہ برتر نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ پیغام ہے جو ہر شہری کو اب سمجھ لینا چاہئے، لاؤڈ اینڈ کلیئر۔
اِس ضمن میں اگر کسی امن اور قانون پسند شہری کے ذہن میں کوئی ابہام ہو یا وہ آئین کی کسی شق کا سہارا لے کر اپنے حقوق وغیرہ کا ڈھنڈورا پیٹنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسے معصوم شہری کی تفنن طبع کے لئے آئین میں چند ترامیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، اچھی رونق لگ جائے گی۔ مثلاً آرٹیکل چار میں لکھا ہے کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی، جسم، شہرت یا املاک کے لئے مضر ہو ماسوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے، اس کی جگہ الفاظ میں یوں ترمیم کی جائے کہ ’’ماسوائے جبکہ کوئی مسلح جتھہ اس کی اجازت دے‘‘ اسی طرح شق پانچ کہتی ہے کہ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے، اسے یوں تبدیل کیا جائے کہ یہ شق ریاست کے لاڈلوں پر لاگو نہیں ہوتی۔ آگے چلئے۔ شق نو میں لکھا ہے کہ کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے، اس میں ترمیم کرکے یوں بنا دیا جائے کہ ’’سوائے جبکہ کسی کے خلاف فتویٰ آ جائے‘‘ آئین کے آرٹیکل 256میں نجی مسلح جتھے بنانا خلاف قانون قرار پایا ہے، یہ شق بھی خواہ مخواہ مسائل پیدا کرتی رہتی ہے اور ’’موم بتی مافیا‘‘ اس کی دہائی دے کر قانون کے مطابق کارروائی کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، سو اس شق کو ویسے ہی حذف کر دینا چاہئے۔ آئین کے شروع میں بھی چند بے معنی جملے لکھے ہیں جو کچھ یوں ہیں :’’اس جمہوریت کے تحفظ کے لئے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم و ستم کے خلاف عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے، اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کرکے اپنی قومی اور سیاسی وحدت اور یکجہتی کا تحفظ کریں، بذریعہ ھٰذا، قومی اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے یہ دستور منظور کرکے اسے قانون کا درجہ دیتے ہیں اور اسے اپنا دستور تسلیم کرتے ہیں‘‘ اس تمام خرافات کی بھی اب چنداں ضرورت نہیں، فقط اتنا لکھنا کافی ہے کہ مملکت ھٰذا میں یہ طے پایا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول اپنایا جائے گا جبکہ لاٹھی کی تعریف دستور کی شقوں میں کر دی جائے گی، بھینس خاطر جمع رکھے۔
بچپن میں کہیں پڑھا تھا All men may be created equal but some are more equal than others اس قول پر عملدرآمد ہوتے بھی دیکھ لیا۔ باقی عملدرآمد دستور کی مجوزہ شقوں میں ترمیم سے ہو جائے گا۔ مملکت خداداد میں البتہ پھر راوی چین ہی چین نہیں لکھ پائے گا۔
نوٹ:گزشتہ کالم میں شہزادہ ولید بن طلال کا نام سہواً طلال بن ولید لکھا گیا، معذرت۔ اسی طرح ’’کلمہ حق کیا ہوتا ہے‘‘ والے کالم میں والٹیئرسے ایک قول منسوب کیا گیا جو اصل میں ایک امریکی لکھاری Kevin Alfred Strom کا ہے گو کہ مشہور والٹیئر کے نام سے ہی ہے لہٰذا اس پر معذرت کی ضرورت نہیں!

تازہ ترین