• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان میں فلم پدماوتی ہندو قوم پرستوں کے نشانے پر ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی اور ہیروئن دیپکا پڈوکون کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ فلم کے بارے میں شور و غل چل ہی رہا تھا کہ آسام کے وزیر صحت ہیمانتا بسوا شرما نے بیان داغ دیا کہ کینسر جیسا موذی مرض انسان کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی بچے کو یہ مرض ہوتا ہے تو اس کے والدین نے کوئی گناہ کیا ہوگا جس کا خمیازہ بچے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں فلم ورنہ پر پابندی لگتے لگتے رہ گئی لیکن مذہبی انتہا پسندوں نے فیض آباد میں دھرنا دے کر اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظام زندگی معطل کر دیا۔ جنوبی وزیرستان میں شادی اور خوشی کے موقعوں پر گانے اور ناچنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ برما میں بدھ بھکشو روہنگیا نسل کے لوگوں کے خلاف نسل کشی کر رہے ہیں۔ مذکورہ واقعات میں تین مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ہی جیسی انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ انتہا پسند تین مختلف ملکوں کے باسی ہیں جن کی سیاسی تاریخ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بین المذہبی اور بین الملکی انتہا پسندی کے پس منظر میں کونسے مشترکہ عناصر کام کر رہے ہیں؟
فلم پدما وتی ایک راجپوت رانی کے بارے میں ہے جس کے حسن کی تعریف سے متاثر ہو کر اس وقت کے ہندوستان کے بادشاہ علائوالدین نے راجستھان پر حملہ کر دیا۔ تاریخی تحقیق کے مطابق کہانی خیالی ہے جسے ایک مسلمان شاعر نے خلجی دور کے بہت بعد میں لکھا۔ ہندوستان کے راجپوتوں کو اعتراض ہے کہ فلم میں ایک راجپوت رانی کا مسلمان بادشاہ خلجی کے ساتھ تعلق دکھا کر راجپوتوں کی بے حرمتی کی گئی ہے: راجپوتوں نے ایک سینا (فوج، لشکر) بھی بنالی ہے جس نے نہ صرف فلم کو سینماؤں میں نمائش سے روکنے کیلئے دھرنوں کا اعلان کیا ہے بلکہ فلم کے ڈائریکٹر اور ہیروئن کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ علائوالدین خلجی نہایت روشن خیال مسلمان حکمران تھا جس نے پہلی مرتبہ ہندوستانیوں کو حکومت میں شامل کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں پہلی مرتبہ ہر چیز کی قیمت پر پابندی لگانے کا آغاز بھی علائوالدین خلجی نے کیا۔ لیکن انتہا پسند طاقتوں کو تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے:وہ تو ایک جنونی کیفیت میں ہیں جس کی بنیادیں عقلی نہیں بلکہ بہت حد تک جذباتی ہیں۔
ہندوستان میں مذہبی قوم پرستی کے بڑھنے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ایک ہندو یوگی ہے جو کہ ایک مندر کا رکھوالا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ پاکستان میں کسی بڑے مذہبی مدرسے یا کسی درگاہ کا سجادہ نشین صوبے یا ملک کا سربراہ بن جائے۔ مذکورہ یوگی وزیر اعظم تاج محل کو ہندوستان کی تاریخ سے اس لئے خارج کر چکے ہیں کہ وہ ایک مسلمان بادشاہ کا تعمیر کردہ ہے۔ نریندر مودی کی زیر قیادت چلنے والی بھارتی جنتا پارٹی تاریخ کو ہندو قوم پرستی کے نقطہ نظر سے لکھوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان میں یہ کام ستر اور اسی کی دہائی سے شروع ہو گیا تھا اور تاریخ کو خالص مذہبی زاویے سے دوبارہ لکھا گیا۔ یہی کیا آج کے ہندوستان میں جو انتہا پسندی اور دہشت گردی بڑھ رہی ہے پاکستان میں اس کا اظہار بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ بر صغیر اور برما میں مختلف مذاہب پنپنے والی انتہا پسند تحریکوں سے بہت سے تاریخی مفروضے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔
سب سے پہلی جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لئے کسی خاص مذہب کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں اسلام کے نام پر مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کے علاوہ اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کی گئی تو ہندوستان میں یہی کچھ ہندومت کے نام پر کیا گیا۔ بدھ مت امن کا مذہب سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے ماننے والے بھی مذہبی انتہا پسندی میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ چونکہ پاکستان اور افغانستان میں مذہبی خونریزی پہلے شروع ہو گئی تھی اس لئے بہت سے دانشوروں نے انتہا پسندی کی جڑیں اسلامی مذہب میں تلاش کرنا شروع کردیں۔ اسلام اور دہشت گردی کا تعلق ثابت کرنے کیلئے ہزاروں صفحات لکھے گئے لیکن جب راشٹریہ سیوک سنگھ کی زیر قیادت ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی پنپنے لگی تو یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا۔ رہی سہی کسر برما کے بدھ بھکشوئوں نے روہنگیا کی نسل کشی کر کے پوری کردی۔ گویا کہ اب یہ ثابت ہے کہ مذہبی قوم پرستی اور انتہا پسندی کو کسی ایک مذہب کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔
ہندوستان میں ہندو قوم پرستی اور برما میں بدھ انتہا پسندی سے یہ بھی ثابت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی ریاست کی تشکیل کا مفروضہ بھی درست ثابت نہیں ہوتا۔ پاکستان کے روشن خیال حلقوں میں عام بیانیہ ہے کہ مذہبی قوم پرستی کا آغازقرار داد مقاصد سے شروع ہوا جس کو منطقی انجام تک جنرل ضیاء الحق نے پہنچایا۔ ہندوستان کی تاریخ بالکل مختلف ہے جہاں ریاست کی بنیاد سیکولرازم پر رکھی گئی اور اسی کی دہائی تک اسی فلسفے پر حکومتیں بنتی رہیں۔ بر سبیل تذکرہ پاکستان میں بھی ستر کی دہائی تک ماحول کافی کشادہ تھا اور روشن خیال طاقتیں کافی مضبوط تھیں۔ لیکن ستر کی دہائی کے بعد جہاں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا آغاز ہوا وہیں ہندوستان میں ہندو قوم پرست طاقتوں کا غلبہ شروع ہو گیا۔ ضیاء ا الحق کا دور 1977سے شروع ہوا جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی 1982میں بنائی گئی۔ اسی کی دہائی سے لے کر اب تک پاکستان اور ہندوستان میں مذہبی قوم پرستی کا فروغ ایک دوسرے کے متوازی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو کچھ جنرل ضیاء الحق اسی کی دہائی میں کر رہے تھے وہ آج نریندر مودی کر رہے ہیں۔ غرضیکہ مختلف سیاسی تاریخوں کے ہندوستان اور پاکستان مذہبی قوم پرستی میں ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔

تازہ ترین