• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید جمہوریہ ترکی اپنے قیام سےلے کر آج تک امریکہ کے ایک قریبی اتحادی کا رول ادا کرتا چلا آیا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ جدید جمہوریہ ترکی کے اتاترک کے دور ہی میں امریکہ سے قریبی تعلقات قائم ہوچکے تھے لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان عملی اتحاد نیٹو اور سینٹو کی رکنیت حاصل کرنے کے موقع پر دیکھا گیا۔ سوویت یونین کی وسعت پسندانہ پالیسی کی وجہ سے ترکی کو اپنے دفاع کیلئے کسی سپر قوت کی حمایت اور پشت پناہی کی اشد ضرورت تھی کیونکہ سوویت یونین ترکی کی سرحدوں تک آن پہنچا تھا۔ اس صورتِ حال سے بچنے کیلئے ترکی نے امریکہ کا اتحادی بننے ہی میں عافیت محسوس کی، اس دور سے آج تک یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتحادی کے طور پر ایک دوسرے کا مکمل ساتھ دیتے چلے آئے ہیں البتہ قبرص کی جنگ کے موقع پر امریکہ کی طرف سے ترکی پر کچھ عرصے کیلئے فوجی امدا د بند کرکےپابندیاں عائد کردی گئی تھیں لیکن ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک ایک بار پھر شیر و شکر ہوگئے اور مختلف شعبوں میں پہلے سے بھی زیادہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے۔ یہ سلسلہ ترکی میں بائیں باز و سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے برسر اقتدار رہنے کے دور میں بھی جاری رہا۔ ترکی کئی ایک یورپی ممالک کے مقابلے میں بھی امریکہ کیلئے زیادہ اہمیت کا حامل تھا اور امریکہ نے کئی ایک یورپی ممالک پر ترکی کو ترجیح دی۔نیٹو اس بارے میں بہترین مثال کی حیثیت رکھتا ہے نیٹو میں ترکی کو کئی ایک یورپی ممالک پر ہمیشہ ہی برتری حاصل رہی ہے اس کی بلاشبہ ایک اہم وجہ ترکی کا کئی ایک یورپی ممالک کے مقابلے میں بہترین اور زیادہ تعداد میں فوج کا مالک ہونا ہے۔ امریکہ کے بعد نیٹو کو دوسری بڑی فوج کی حیثیت حاصل ہے۔
ترکی کے امریکہ کے صدر باراک اوباما کے دور تک بڑے قریبی تعلقات قائم رہے ہیں بلکہ سابق صدر اوباما نے اپنے پہلے دور میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے اسلامی ممالک میں ترکی کا دورہ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ ترکی ان کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ملک ہے اور صدر اوباما کے دور تک ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں قربت کا یہ سلسلہ جاری رہا لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں اونچ نیچ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ترکی نے شام سے متعلق امریکہ کی پالیسی کی کھل کر حمایت کی اور اس دوران ترکی نے روس کے جنگی طیارے کو گرا کر روس کیساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑنے سے بھی گریز نہ کیا اور لگتا یہی تھا کہ ترکی امریکہ سے مل کر شام کے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے محروم کروانے میں کامیاب رہے گا لیکن علاقے میں براہ راست روس اور ایران کی مداخلت کی وجہ سے ترکی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور امریکہ نے بھی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے میں کوئی دلچسپی نہ لی بلکہ اپنے اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیلئے علاقے میں موجود دہشت گردتنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی‘‘ اور ’’وائی پی ڈی‘‘کی پہلے بالواسطہ اور بعد میں براہ راست حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی امداد کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ یہ صورتِ حال ترکی کیلئے لیے ناقابلِ قبول تھی ،اس نے کئی بار انقرہ میں موجود امریکی سفیر کو وزارتِ خارجہ طلب کرتے ہوئے احتجاجی مراسلہ دینے کے ساتھ اس کے باہمی سفارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہونے سے بھی آگاہ کیالیکن امریکہ کی جانب سے ترکی کے ان احتجاجی مراسلوں کی ذرہ برابر پروا نہ کی گئی اور ان دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ کی پشت پناہی کرنے اور ترکی میں 15جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت میں ملوث امریکی قونصل خانے میں ملازم دو ترک باشندوں سے پوچھ گچھ کیلئے حراست میں لیے جانے پر دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات پر کاری ضرب لگی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے باشندوں کو ویزا فراہم کرنے کی سروس کو کچھ عرصے کیلئے معطل کردیا تاہم اب سہولت کو بحال کردیا گیا لیکن اس دوران ترکی کی جانب سے روس سے ایس 400 میزائلوں کی خریداری کے سودے سے ترکی اور روس ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں اور خاص طور پر 15جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے موقع پر صدر پیوٹن نےترکی کے صدر ایردوان کو بر وقت اطلاع دے کر ترک صدر کے دل میں اپنے لیے جگہ بنالی۔ گزشتہ ہفتے روس کے شہر سوچی میں شام کی صورتِ حال سے متعلق روس،ایران اور ترکی کے صدور کی ملاقات اورنئی حکمتِ عملی اپنائی جانے پر اتفاق سے امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے صدر ایردوان کے واپس ترکی پہنچنے پر ٹیلی فون کرتے ہوئے فوری طور پر ترکی کی دہشت گردتنظیم ’’ پی کے کے‘‘ کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی‘‘ اور ’’وائی پی ڈی‘‘ کو ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرنے سے باز آنے کی یقین دہانی کروائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اس یقین دہانی پر عمل درآمد کرتا ہے یا نہیں۔امریکہ کسی بھی صورت ترکی کو روس کی گود میں جانے نہیں دے گا کیونکہ اس سے قبل علاقے میں ایران کو روس کی مکمل اشیر باد حاصل ہے اور شام میں بھی روس اپنی پوزیشن بہت مضبوط کرچکا ہے اور اب وہ ترکی جیسے حلیف ملک کو کسی بھی صورت کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ ترکی کے امریکی اثرو رسوخ سے نکلنے کی صورت میں علاقے کی جیو پولیٹکل حیثیت تبدیل ہو کر رہ جائے گی اور ترکی جو کہ نیٹو میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ فوجی نفری رکھنے والے ملک ہے، کو شدید دھچکا لگے گا اور جس طرح سوویت یونین کے فوجی اتحاد کا شیرازہ بکھر چکا ہے اسی طرح نیٹو کا بھی شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ترکی کے صدر ایردوان کو دہشت گرد تنظیموں کو ہر قسم کا اسلحہ فراہم نہ کرنے کی یقین دہانی کروا کے دراصل ترکی میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ ترکی کے روس کے قریب جانے سے بہت خائف ہے کیونکہ اس سے پورے خطے کی سیاسی صورتِ حال تبدیل ہو کر رہ جائے گی اور روس کو ،جو مشرقِ وسطیٰ میں اپنی گرفت کھو چکا تھا، ایک بار پھر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا موقع میسر آسکتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان جو صورتِ حال کی نزاکت کو پوری طرح بھانپ چکے ہیں بہت پھونک پھونک کرقدم رکھ رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے ناقدین ان کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے چلے آئے ہیں لیکن اگر صدر ایردوان کی جانب سے اب تک اٹھائے جانے والے اقدامات کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ اس وقت تک اٹھائے جانے والے اقدامات میں کامیاب رہے ہیں اور اب امریکہ کو بھی ترکی سے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پرمجبور کردیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ ترکی سے متعلق نئی پالیسی پر کب عمل درآمد شروع کرتا ہے اور اس نے اب تک جو اسلحہ ترکی کی دہشت گردتنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی‘‘ اور ’’وائی پی ڈی‘‘ کوفراہم کیا ہے اس کو کس طرح واپس لیتا ہے۔ان تنظیموں سے اسلحہ واپس حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ان دہشت گرد تنظیموں کے پاس موجود یہ اسلحہ کسی وقت امریکہ کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے اس لئے امریکی حکام اسلحہ و اپس لینے کیلئے اپنی نئی پالیسی مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔

تازہ ترین