• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں مردم شماری کے تاخیر سے انعقاد کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، سینسس کے اعداد و شمار الیکشن کمیشن تک تاحال نہ پہنچنے، حلقہ بندیوں کیلئے قانون سازی میں حائل بعض رکاوٹیں اور کچھ تکنیکی الجھنیں اگر الیکشن کمیشن کے حلقوں میں عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے خدشات کو جنم دے رہی ہیں تو انہیں زیادہ غلط نہیں کہا جاسکتا۔ مگر ملک کے حالات اور آئینی ضرورتوں کا تقاضا ہے کہ انتخابات نہ صرف بروقت ہوں بلکہ ہر طرح سے آزادانہ اور شفاف ہوں۔ یوں تو پارلیمانی جمہوریت کے حامل ملکوں میں کبھی بھی قبل از وقت الیکشن کا اعلان ہوسکتا ہے اور الیکشن کمیشنوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام متعلقہ اداروں کے رابطے اور تعاون کے ساتھ ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہیں مگر وطن عزیز میں پچھلے برسوں سے جاری کیفیات نے یہ رجحان پیدا کر دیا ہے کہ معمول کے معاملات میں بھی جب تک فیصلوں اور اعلانات کی نوبت نہیں آجاتی متعلقہ محکمے اور ادارے اپنے کام کی تیاریاں شروع نہیں کرتے۔ اس وقت کے حالات میں ہمارے آئین ساز و قانون ساز اداروں، وزارت شماریات اور الیکشن کمیشن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کریں اور خوش اسلوبی کے ساتھ تمام متعلقہ مسائل سے نبردآزما ہوں۔ عجیب بات یہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل عبوری دور کیلئے غیرجانبدار نگراں حکومت کے قیام کیلئے وفاق کی سطح پر نگراں وزیراعظم کی تلاش کی خبریں ابھی سے گردش میں ہیں مگر مخصوص آئینی مدت کیلئے ایسی شخصیت کی تلاش کے مجاز صرف قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف ہیں۔ یہ دونوں شخصیات اپنی اپنی حلیف جماعتوں کی رائے لینے کے بعد باہمی مشاورت سے جس فرد کے نام پر متفق ہونگی وہی عبوری یا نگراں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوگا۔ اس اتفاق رائے کا درست وقت حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل یا قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ ہے۔ یہی طریق کار صوبوں میں اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر عبوری وزیراعظم اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی تلاش قبل از وقت شروع ہوچکی ہے یا مقررہ آئینی مدت سے زیادہ وقت کے لئے کی جارہی ہے یا ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کی قیاس آرائیوں کا کوئی عملی نقشہ بن رہا ہے تو اس میں مضمر منفی پہلوئوں اور اثرات کا اندازہ ہر محب وطن اور صاحب فہم فرد کرسکتا ہے۔ وزیر خزانہ کی تلاش کی خبریں بھی گردش میں ہیں جن کے لئے یہ تاویل پیش کی جاسکتی ہے کہ جناب اسحاق ڈار کی علالت کے دوران یا صحت کی خراب صورت حال کے باعث ان کی جانب سے معذوری کے اظہار پر مالیاتی وزارت کے انتہائی اہم اور حساس کام کو جاری و ساری رکھنے کا کوئی متبادل انتظام ہونا چاہئے ۔جہاں تک عام انتخابات کے انتظامات کا تعلق ہے،ملک میں کئی ماہ قبل کی گئی مردم شماری کے بعد نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنا قانونی ضرورت ہے۔ اس سے متعلق مسودہ قانون تاحال سینیٹ سے منظوری کا منتظر ہے۔ یہ بل گزشتہ روز بھی سینیٹ کے اجلاس میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ جبکہ قومی اسمبلی میں یہ بل منظور ہوچکا ہے۔ منگل کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی پارٹی کے سینئر ارکان سے اس باب میں مشورہ کیا کہ حلقہ بندیوں کے بارے میں تعطل کیسے دور کیا جائے۔ حکومت نے اس حوالے سے اپوزیشن سے بھی تعاون کی درخواست کی ہے۔ اس بارے میں کئی اور مسائل بھی ہیں۔ مثلاً 5فیصد سینسس بلاکس کی تصدیق کا عمل بھی پیچیدہ ہوگیا ہے جس کا حل نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کے ضمن میں 5ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ حلقہ بندیوں سے متعلق قانون سازی میں رکاوٹ جلد پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرکے دور کی جانی چاہئے۔ کیونکہ انتخابات میں کسی بھی وجہ سے تاخیر کی صورت میں ایک جانب غلط روایت قائم ہوگی دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کو بھی تحفظات ہونگے کیونکہ حال ہی میں آنے والی سروے رپورٹیں 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا اشارہ دے رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ ادارے اور حلقے انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنائیں۔

تازہ ترین