• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توبۃ النصوح عطیہ خداوندی، بھلاکون جو یہ حق چھین سکتا ہے۔ میر تقی میر تقریباً اڑھائی سو سال قبل نواز شریف کی حالتِ زار بیان کر گئے ؎
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھامئے خانے میں
جبہ ،خرقہ، کرتہ، ٹوپی، مستی میں انعام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے خود مختاری کی
چاہتے ہیںسو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ہوسِ اختیارات و اقتدار سے سرشار گدھیں ، ریاست نوچ چکیں، ڈھانچہ سامنے۔21دن کا دھرنابین الاقوامی میڈیا کو شہ سرخیاں دے گیا، ٹائٹل کہانی ایک ہی، "دنیا کی خطرناک ترین ریاست عراق نہیں پاکستان ہے"۔ سب کچھ پلک جھپکتے ، اس حال تک کیسے اور کیوں پہنچایا گیا؟ آئین اور قانون سے تجاوز،عرصہ دراز سے، قومی شعارتھا۔ خطرناک کہ تعلیمات قرآن و سنت ، حدود اللہ اور اسوہ حسنہ ﷺ کی پیروی میں تجاوز ہو ا۔ ریاست اور ادارے اپنے تئیں خود مختار، جب کبھی بحران پیدا ہوا، افہام و تفہیم عام ہوا، مٹھی بھر افراد کے ہاتھوںبحران سامنے ریاست بے دست و پانظر آئی۔ آرٹیکل 245کو جب بھی طلب کیا گیا، افہام و تفہیم کا مشورہ ملا۔بات سچ ہے مگر رسوائی کی، افہام و تفہیم سے پیدا ہونے والا بحران21دن بعد آدھے گھنٹے میںبذریعہ افہام و تفہیم ہی حل ہوا۔زاہد حامد کا استعفیٰ بہانہ، نواز شریف کی سیاست اصل نشانہ۔گیم پلان اتنا، انتشار، انارکی اگر خانہ جنگی کی دہلیز ٹاپتا تو" اچھے بچوں" کو زاہد حامد کے استعفیٰ پر گھر بھیج دیا جاتا، جو کہ ہوا ۔بفرض محال حالات سنگین نہ ہوتے تو دھرنا نواز شریف سیاست کو مسدود اور ممنوع بناکر ہی دم لیتا۔مزید ساری اسمبلی اور حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ آنا تھا،نواز شریف پر پابندیاںبھی لگنی تھیں۔
جو زبان استعمال ہوئی، گالم گلوچ، دشنام طرازی، اسلامی اصلاحات کے ساتھ جوڑی گئیں۔ علماء و مشائخ کی خاموشی یا تعاون، بتانا ہو گا کہ یہ سب کچھ تعلیمات اسلامی کے مطابق تھا؟ اگرچہ اسمبلی میں بیٹھے علماء و مشائخ، سیاستدان ایسی ’’شعوری‘‘یا’’غیر شعوری‘‘ غلطی میں برابر کے شریک، بلکہ دونوں ایوان برابر"ملوث"۔ معافی تلافی کی ہرممکن کوشش ہوئی، قدم قابلِ تحسین کیوں نہ رہا؟ ’’توبۃ النصوح‘‘جیسی نعمت اور سہولت سلب کیسے ہو سکتی ہے؟
آج ریاست مضروب،ایجنڈا بھی معلوم ہو گا؟غافل نہیں کہ NA120 انتخانی مہم میں ایسے لوگوں سے پہلے نیٹ پریکٹس کروائی گئی۔ انتخابی دنگل میں کودے تو تفرقہ بازی، نفرت اور مذہبی جذبات برانگیختہ رکھنے کی ہر انتہا چھوئی ؟ اب جبکہ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد آئینی اور قانونی تحفظ سے جاری و ساری،موجودگی میں مٹھی بھر افراد دن دہاڑے ریاست کو کیسے اور کیونکر محصور کر پائے؟ اگر دھرنا آدھے گھنٹے میں ختم ہو سکتا ہے تو ریاست کو 21دن انتشار اور انارکی کے عذاب میں کیوں مبتلا رکھا گیا؟بروز ہفتہ، غیر ملکی میڈیا نے سوال کیا کہ ملک میں لگی آگ، حالات و معاملات نے کہاں منتج ہونا ہے؟ جواباً عرض کیا ، جو کچھ آج سامنے،عرصے کی کاوشوں کا نتیجہ ہی تو ہے۔ جو بیج بوئے گئے، افزائش ہوئی، پھل پھول چکے، فصل کاٹنے کا زمانہ آن پہنچا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی موجودگی میں انتخابی معرکے میں"ایسوں کو" کھلا چھوڑناہی بہت کچھ رقم کرگیا۔ نواز شریف کو سیاسی طور پر"دفع "کرنا، قوی اہمیت بن چکا۔ مملکت خداداد جائے بھاڑ میں، 2014ریاست میں انتشار پھیلانے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا گیا۔پچھلے ساڑھے تین سالوں سے یکسوئی دیدنی ہے۔میڈیا کا ایک حصہ خوب استعمال ہوا۔ میڈیا پر قبضہ استبداد ایسا کہ حکم عدولی والوں کو موقع بہ موقع مثال بنا دیا گیا۔لگتا تھا اداروں کا نواز شریف سے گھمسان کا رن ہے۔ مہرے، پیادے، ہاتھی، گھوڑے، وزیر سب جھونک دئیے ۔
اپریل2014قومی بدقسمتی کا آغاز، پیادہ کینیڈا سے نعرہ بھیجتاہے،"سیاست نہیں ریاست بچائو" شاہراہوں، کونے کھدرے، جگہ جگہ پوسٹر، بینرز، ہورڈنگز،ا سٹیمر، آویزاں رہے۔اخراجات کروڑوںسے اربوں میں تبدیل، پلک جھپکتے خرچ کر ڈالے۔"ریاست"کو بچانے کے لئے سیاست کو آڑے ہاتھوں لینے کا اعلامیہ ڈنکے کی چوٹ پر تھا۔تب تک الیکشن دھاندلی یا چار سیٹوں دھاندلی والا فراڈ، برسرعام تھا نہ پیکار اور نہ ہی ماڈل ٹائون قتل عام واقعہ رونماہوا۔ اپریل کے اختتام تک دوسرامہرہ بطور"سیاسی کزنـ" اتار اگیا۔الیکشن دھاندلی ڈھونگ رچایا، ممدومعاون بن گیا۔ اسٹیبلشمنٹ، نادیدہ ہاتھ، ایمپائر کی مداخلت و مدد کا برملا اظہار و اعتراف رہا۔ ریاست کی فکر میںکھل کر سیاست چمکائی۔ انارکی ، افراتفری، انتشارپھیلایا۔ کل رات ایک ٹی وی شو پر عمران خان نے ملتے جلتے دھرنے پر شہریوں کی تکلیف اور ریاست کو اربوں ڈالر نقصان پہنچے کا اعترافی بیان دیا۔
2014 جزوئیات کی منصوبہ بندی، ضامن کی ضمانت پر عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشیدکالندن میں معاہدہ طے پایا ۔تفنن اور تعفن لندن پلان کوتینوں جھٹلاتے ہیں، دلجمعی سے تردید کی پھر ڈھٹائی سے تسلیم کیا۔جھوٹ اور منافقت میں نام و مقام بنایا۔لندن پلان تھا کیا؟ پلان اتنا کہ ریاست بچانے کا ڈرامہ رچا کر نواز شریف سے اقتدار چھیننا تھا۔ مدعا ایجاد کرنا حصہ تھا۔ نواز شریف کو پھانسی کی سزا کی حمایت کروں گا، اگراتنا جواب مل جائے کہ 2014میں ریاست پر کیا افتاد پڑی کہ اربوں ڈالرنقصان، قومی زندگی تہہ و بالا رہی؟نواز شریف خلاف صبح وشام گالم گلوچ عام کر کے ریاست کو بربادکیوں کیا؟ اس وقت پاناما لیکس تھیں نہ انتخابی اصلاحات بل،آج کا کوئی مدعا موجود نہ تھا۔بالآخر نواز شریف نااہل ہوا، تو معلوم ہوا کہ کام نہیں بنا۔ NA120کا الیکشن، تحریک لبیک کی انتخابی مہم ، ساڑھے تین سال سے میڈیا پر الزامات، تہمتیں اور دشنام طرازیوں سب چلا ڈالے۔پلس اور گیلپ سروے ، ایبٹ آباد جلسہ ، جی ٹی روڈ سفر،NA120کے نتائج نے مایوسی چھٹنے نہیں دی۔سازشوں،تدبیروں کو بے اثر بتایا۔نواز شریف لوہے کا چنا ثابت ہوئے۔نوا زسیاست نہ لڑکھڑائی بلکہ مضبوط کھڑی نظر آئی۔ گیلپ سروے کے بعددھڑکا لگ گیاکہ نواز شریف پر قیامت کی گھڑی مزید سخت رہے گی۔بالآخرخوفناک ، خطرناک نواز شریف کو صفحہ ہستی سے مٹانے ، نیست و نابود رکھنے کے لئے قرآن و سنت کی تعلیمات اوراحکامات سے تجاوزکرنا پڑا، فساد فی الارض کا خطرناک ڈرامہ رچایا گیا۔انتباہ،آنے والے دنوں میں ریاست بھگتنے کو تیار رہے۔بانی متحدہ ایک بلی تھا جوتھیلے سے جب نکلا توواپس ڈالنا ناممکن رہا، ریاست آج بھی کراہ رہی ہے۔ حضور یہ بوتل میں بند جن ہے۔ آنے والے دنوں میں کاریگروں کو لگ پتہ جائے گا۔ اگلے دنوں نظریاتی ریاست کو ہلکان رکھے گا، بے حال رکھے گا۔ اللہ کی اپنی اسکیم ، نواز شریف اور مسلم لیگ کی حکومت معمولی زخمی، بال بال بچ گئی۔مگر ریاست بری طرح مضروب ہے۔ اے قوم ! دعا گو رہنا کہ دشمن کمال حکمت اور محنت شاقہ ، اپنوں کی مددبدولت انتشار اور افراتفری میں دھکیل چکے۔ نواز شریف کو سیاست سے دور رکھنے کے جتن میں ریاست انارکی اور خانہ جنگی کی گرفت میں ہے۔ اب تو مایوسی میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہیا اللہ نواز شریف مع شریف خاندان اٹھا لے مگرریاست کو بچالے یہ نہ ہو کہ نواز شریف کو تہ تیغ کرتے کرتے، ریاست تتر بترہو جائے۔

تازہ ترین