• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کا ہر موڑ بلاشبہ سیکھنے کیلئے ہوا کرتا ہے لیکن ساری زندگی بھی سیکھنے کیلئے نہیں ہوتی۔ ہمیں آزادی حاصل کئے ستر برس بیت چکے ہیں، اس عرصے میں ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن ہم ابھی تک اندرونی چپقلش پر ہی قابو نہیں پاسکے، ستر سالہ ملکی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب ہمارے پیارے وطن کو نازک صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، افسوس کا مقام ہے کہ اپنوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے ہمارا بڑاپن غائب ہوجاتا ہے، ہم معاملہ فہمی اور افہام و تفہیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، ہمارا تجربہ بھی کسی کام نہیں آتا اور اس کا نتیجہ ملک و قوم کی مشکلات میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کی تازہ مثال راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر اکیس دن جاری رہنے والا دھرنا ہے جو بالآخر ختم تو ہو گیا لیکن اپنے پیچھے بہت سے ایسے سوالات چھوڑ گیا جن کا جواب اگر ہم نے تلاش نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ سب سے پہلے تو مذہبی جذبات کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ اس حساس ترین ایشو پر آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے پسِ پردہ عوامل کیا تھے؟ میرا دل اس کو کلیریکل غلطی ماننے کو تیار نہیں اور یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ وفاقی حکومت نے کیوں اس ایشو پر ہونے والے احتجاج کو سنجیدہ نہیں لیا، احتجاجی دھرنے میں شدت آجانے پر حکومت نے ترمیمی بل واپس لے کر آئین واپس بحال کیا تو کیا واقعی یہ غلطی جان کر ضمیر کی ملامت کی وجہ سے ہوا یا پھر پریشر میں آکر کیا گیا؟ آئینی ترمیمی بل کوئی لگ بھگ تین سال پارلیمانی کمیٹی کے پاس زیربحث رہا اور اس بل کے موضوع پر منعقدہ مختلف اجلاسوں میں شرکت کے باوجود کوئی ممبر غلطی کی نشاندہی نہ کرسکا، پھر یہ بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہوجاتا ہے۔ یہ بل چونکہ حکومت کی طرف سے وزیر قانون نے پیش کیا تھا اس لئے اس کی بنیادی ذمہ داری وزیر قانون پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی منظوری دینے والے دیگر پارلیمانی نمائندے جوابدہ کیوں نہیں؟ اسی طرح احتجاجی مظاہرین کوئی اناً فاناً فیض آباد پر قابض نہیں ہوئے بلکہ وہ باقاعدہ اعلان کرکے اپنا ایک مقصد لے کر لاہور سے بجانب اسلام آباد روانہ ہوئے تھے، دوران سفر حکومتی ادارے کیا سوتے رہے؟ کسی کے دل میں احساسِ ذمہ داری نہ جاگا کہ ان کو فیض آباد بند کرنے سے روکنے کے لئے گفت و شنید کا آغاز کیا جائے۔ سب سے اہم ترین سوال میری نظر میں یہ ہے کہ جب مظاہرین کی جانب سے دھرنا شروع کردیا تو اس سے نمٹنے کے لئے حکومت نے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا یا پھر صرف محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں پر ہی اکتفا کیا گیا کہ بارش ہونے کی صورت میں مظاہرین خود ہی بھاگ جائیں گے؟ کیا ماضی کے دھرنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اس حقیقت سے لاعلم تھی کہ اپنا گھربار چھوڑ کر اسلام آباد کے شدید ترین سرد موسم میں آنے والے مظاہرین اپنے مقصد کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار تھے۔ جڑواں شہروں کے لاکھوں شہریوں کی سہولت کے لئے میٹرو بس سروس کس کے کہنے پر بند کی گئی؟ میں نے دی نیوز میں شائع ہونے والے اپنے انگریزی کالم میں زور دیا تھا کہ ریڈ زون میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر حکومتی عمارتوں کی طرح میٹرو بس بھی ریاست کی علامت ہے اور اس سلسلے میں چاہے حکومت رینجرز سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات حاصل کرے مگر میٹرو بس کا پہیہ کسی صورت جام نہیں ہونا چاہئے، عوام کا اعتماد موجودہ حکومت پر کیسے بحال رہ سکتا ہے جب کڑا وقت آنے پر عوامی منصوبوں کو ایک دم بند کرکے شہریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، کیا کسی نے اس تکلیف کا احساس کیا کہ کیسے ملازمت پیشہ خواتین و حضرات اور طلباوطالبات کے نقل و حرکت میں خلل ڈال کر ان کے بنیادی آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا، مغربی معاشروں میں بیس بیس لاکھ لوگوں کا احتجاجی مارچ ہوتا ہے لیکن معمولاتِ زندگی کو قطعی متاثر نہیں کیا جاتا، ایسا پرامن احتجاج پاکستان میں کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ اسی طرح سوشل میڈیا اور نجی ٹی وی چینلز نشریات کی بندش کے بلاجواز اقدام نے ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم کردیا۔ میرا دِل خون کے آنسو روتا ہے جب خیال آتا ہے کہ کیسے ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ایک کمِ سن بچے نے اپنی جان خالقِ حقیقی کے حوالے کردی، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، یہی بات اگر دھرنے والوں کے دل میں سما جاتی تو وہ خود دھرنا ختم کرکے احتجاج کے لئے کوئی اور راہ اختیار کرلیتے، ایمبولنس کو راستہ نہ دینا انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات اس حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے، ہندو دھرم کے مطابق نِیوڑت (جھُکنا)، پراشچت (اپنی غلطی ماننا) اور غلطی پر پشیمان ہوکر معافی مانگنا ہر اچھے انسان کی نشانی ہے، اسی طرح معاف کردینا ایک اعلیٰ انسانی خوبی ہے، خداوند تعالیٰ بھی اپنے ان بندوں سے خوش ہوکر گناہوں کی معافی عطا کرتا ہے جو زمین پر اس کی مخلوق کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں، اسلام کا تو مطلب ہی امن و سلامتی ہے اور اسلام میں راستے سے رکاوٹیں دور کرنے کو صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ فیض آباد دھرنے کے موقع پر کسی فریق نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن مظاہرین کے سخت مطالبے اور حکومتی ہٹ دھرمی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ ضرور کیا، اب ناقص حکمت عملی کے نتیجے میں شہریوں کا خونِ ناحق کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا جائے؟ کیا احتجاجی مظاہرین کے پاس ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات اور بعدازاں برآمدگی جھوٹ کا پلندہ ثابت نہیں ہوئیں؟ اگرحقیقتاً مظاہرین ہتھیاروں سے لیس تھے اور تشدد میں ملوث تھے تو معاہدے میں انہیں پرامن تحریک کیوں قرار دیا گیا اور کیوں تمام گرفتار کارکنوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا؟ فیض آباد آپریشن کی ناکامی سے ریاست اور ریاستی اداروں کی جو جگ ہنسائی ہوئی اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جانی چاہئے؟ اگر دھرنا ختم کرنے کے لئے حکومت نے کوئی فزیبیلٹی تیار کی تو بعد میں معاہدے پر دستخط کرکے افسوسناک کیوں قرار دیا گیا؟ اگر فیض آباد انٹرچینج کھلوانے کا واحد حل وزیر قانون کا استعفیٰ ہی تھا تو یہ بہت پہلے کیوں نہ کیا گیا؟ کیا بے بسی کی حالت میں جمہوری نظام کو رسوا کرنے کے بعد پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر ہی استعفیٰ دینا حکومت کی کامیابی ہے؟ حکومتی صفوں میں وہ کون سے ناعاقبت اندیش عناصر تھے جو صرف میڈیا میں نظر آنے کیلئے دھرنے کو روز بروز طول دے کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کررہے تھے؟ آئین کے آرٹیکل 5کے تحت ملکی قوانین کو ماننا ہر شہری پر فرض ہے، دھرنے والوں نے آئینی ترمیمی بل کی تشریح کیلئے عدالت پر اعتماد کیوں نہیں کیا؟ میں سمجھتا ہوں کہ اکیس روزہ فیض آباد دھرنا ملک و قوم اور عالمی برادری کو بہت سے خطرناک پیغامات دے گیا ہے، عالمی برادری پاکستان کو قدیم دور کے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے جہاں دارالحکومت پر لشکرکشی کرکے طاقت کے زور پر امورِ مملکت میں مداخلت باآسانی کی جاسکتی ہے۔ مستقبل میں ایسے ناپسندیدہ واقعات کی روک تھام کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمان میں قانون سازی کیلئے تعاون کرنا چاہئے کہ سڑکوں کی بندش چاہے وہ بطور احتجاج ہو یا پھر سیکورٹی پروٹوکول خلافِ قانون اور قابلِ سزا اقدام قرار دی جائے۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے ہم وطنوں پر گولی نہ چلانے کا بیان قابلِ تعریف ہے، عسکری حکام نے جس خوش اسلوبی سے آخری وقت میں معاملے کو ہینڈل کیا وہ ہم سب کیلئے سبق آموز ہے، وہیں میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن)کے ورکرز کنونشن میں ذمہ دار وزیر کو کابینہ سے نکالنے کا جو مطالبہ کیا تھا، اگر اس پر بروقت عمل کرلیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میری نظر میں فیض آباد دھرنا آپریشن سے ہم نے پایا کچھ نہیں لیکن کھو سب کچھ دیا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق دھرنے سے ملک کو پچاس ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، اگر ہم نے بطور پاکستانی قوم ان سوالات کے جواب تلاش کئے بغیر فیض آباد دھرنے کو فراموش کردیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ کل کوئی اور لشکر کوئی اور مطالبہ لیکر فیض آباد انٹرچینج پر قابض ہونے میں کامیاب ہوجائے گا۔

تازہ ترین