• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک پہلو تو یہ ہے کہ اسلام آباد کا تازہ ترین دھرنا حکومت کی شکست پر انجام پذیر ہوا۔ احتجاجیوں کا زاہد حامد کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ استعفے کی منظوری کی صورت میں مان لیا گیا اور یوں دھرنے کے ’’منتظمین‘‘ اور شرکا کامیاب، بامراد اور سرخرو ہو کراپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب لوٹ گئے۔ دھرنے کے غریب شرکا کو تو گزشتہ تین ہفتوں میں سوشل اور نیوز میڈیا پر دستیاب ویڈیوز میں نعرے لگاتے، چیختے چلاتے، پولیس پر ہاتھ اٹھاتے اور مار کھاتے دیکھا ہی جاتا رہا؛ لیکن معاہدے کے بعد دھرنے کے چند دیکھے اور اَن دیکھے ’’منتظمین‘‘ کو بھی پوری قوم نے ’’فرائض منصبی‘‘ انجام دیتے ہوئے دیکھ لیا! اِس دھرنے کی تاریخی کامیابی کے سبب کچھ چہروں پر نظر آنے والا اطمینان گویا ’’نور‘‘ بن کر چاروں اطراف پھیلتا ہوا بار بار اِن کے ’’منتظم‘‘ ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ اِس کے بر عکس حکومتی نمائندوں اور وزرا پر بے بسی اور مایوسی کے تاثرات آج بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
حد یہ ہے کہ دھرنے کی کامیابی کے بعد یہ بے بس و لاچار سرکاری عہدیداران اب کڑھنے اور دبی دبی آواز میں دھرنے کے خلاف سرگوشیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایسی عبرت ناک بے بسی کسی بھی منتخب برسر اقتدار حکومت کی اپنی اہلیت پر سوالیہ نشان بن سکتی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی!
معاہدے کی تفصیل سے قطع نظر، یہ حقیقت قوم کے سامنے ہے کہ دھرنا دینے والوں کی تمام شرائط من و عن تسلیم کرلی گئی ہیں جب کہ حکومت، اپنی شرائط یا مطالبات منوائے بغیر اس بات پر ہی راضی تھی کہ بس کسی طرح یہ دھرنا کوئی فتوی جاری کئے بغیر ہی مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ معاہدے کے تحت حکومت اُن اہلکاروں کو سزا دینے کی پابند ہے جنہوں نے آپریشن میں حصہ لیا لیکن حکومتی اہلکاروں کو زخمی کرنے والے کسی شخص کے خلاف آئندہ کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ دھرنا ہٹانے کے لئے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لئے جانے پر بہت زور ہے۔
افسوس کہ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب پاکستان کا ہر دشمن اِس پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ ایک طرف پڑوس سے جارحیت کا خطرہ اب تک منڈلا رہا ہے اور دوسری طرف مغرب کی بڑی طاقتیں مستقل اِس خدشے میں مبتلا ہیں کہ کہیں پاکستان کے جوہری اثاثے انتہاپسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اگرچہ بحیثیت قوم ہمیں آج بھی یقین ہے کہ ملک کی سرحدیں اور جوہری اثاثے مکمل طور پر محفوظ اور مضبوط ہاتھوں میں ہیں لیکن دارالحکومت کی اہم ترین شاہراہوں پر آئے دن دھما چوکڑی اور پرتشدد جھڑپیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سیاسی اہمیت اور ساکھ کو متاثر کرسکتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ دنیا کے اہم سیاسی اورتجارتی خطوں میں پاکستان سے متعلق ممکنہ شکوک و شبہات اقتصادی اور خارجہ امور میں بھی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
دھرنے کی کامیابی صرف حکومت کیلئے نہیں بلکہ، میری ناقص رائے میں، حکومت مخالف چند سیاست دانوں اور جماعتوں کے لئے بھی تشویش کا باعث ہے۔ پرانے وقتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو صوبہ پنجاب میں زیادہ تر نواز لیگ کی مقبولیت کا سامنا تھا۔ پھر پی ٹی آئی نے صوبے میں کچھ مسلم لیگی ووٹرز چھین کر اور کچھ اپنے لئے نئے حامی پیدا کرکے پیپلزپارٹی کی انتخابی دشواریوں میں اضافہ کردیا اور اب یہ کامیاب دھرنا کم از کم صوبے میں کسی حد تک پیپلز پارٹی کیلئے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کیلئے دھرنے کی یہ کامیابی نہ صرف پنجاب میں انتخابی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے بلکہ سیاست پر اثر انداز ہونیوالے خاص حلقوں میں کپتان کی مقبولیت پر بھی برا اثر ڈالتی نظر آرہی ہے۔ یعنی نظریہ بقائے اصلاح (Survival of the Fittest)کے تحت اسلام آباد میں اِس پیش رفت کے بعد قوی امکان ہے کہ سیاست کے ’’تھرڈ ایمپائر‘‘ کی توجہ اب سال 2014میں چار ماہ کے طویل اور ناکام دھرنا دینے والوں اور تین ہفتوں کے نسبتاً مختصر اور کامیاب دھرنا دینے والوں کے درمیان تقسیم ہو جائے۔ کم خرچ، مختصر اور کامیاب دھرنا بلاشبہ کسی مہنگے، طویل اور ناکام دھرنے سے بہتر ہوتا ہے؛ اور پھر توقعات پر سو فیصد پورا اترجانا ویسے بھی اپنے طور ایک منفرد کامیابی ہے۔
دوسرا پہلو! صورتحال کو بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو اس متضاد حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نون لیگ کے اقتدار کے خلاف ایک اور طاقتور کوشش دراصل ناکام ہوگئی ہے۔ اگرچہ وزیر قانون زاہدحامد کی قربانی پر نون لیگی قیادت اور عہدے داران یقینا خوش نہیں ہوں گے لیکن حکومت گرانے کے لئے اب تک کی جانے والی منظم کارروائیوں میں ’’ناکامیوں‘‘ کی فہرست اب لمبی ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں ہنگامی صورتحال کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹس شوکت عزیر صدیقی کے چند ریمارکس اور سوالات ملک میں نون لیگ اور حکومتی عہدیداروں کے لئے ہمدردی میں اضافے کا سبب بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخابی سروے کے تناظر میں یہ تاثر بھی بنتا جا رہا ہے کہ نون لیگ حکومت کا بار بار ہدف بننا اس کی مستقل سیاسی برتری کی بنیادی وجہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ’’مظلومیت‘‘ اور’’ بے بسی‘‘ کا لیبل سیاسی جماعتوں کی انتخابی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کرتارہا ہے۔ آج بھی، بے نظیر بھٹو کا قتل سال2008کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی نمایاں کامیابی کا بنیادی سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایم کیو ایم انتخابات میں کراچی اور شہری سندھ کی مقبول ترین جماعت ثابت ہوتی رہی ہے لیکن یہ غلط نہیں کہ سال 1992سے اب تک پارٹی کا کسی نہ کسی سطح پر ریاست کے زیر عتاب رہنا اس کی مستقل مقبولیت کے پیچھے ایک اہم عنصر رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ نون لیگ پر جاری یہ مستقل عتاب بھی سال 2018کے انتخابات میں اس کے لئے کسی خوشخبری کا باعث بن جائے۔ ملک کے کچھ معتبر اور معروف تجزیہ کار برسو ں سے اس بات پر مصر ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل پیپلزپارٹی کے زندہ اور مقبول رہنے کی بنیادی وجہ ہے ۔
اپریل 2015میں قومی اسمبلی کے حلقے NA-246 میں منعقدہ ضمنی انتخاب میں پولنگ سے چند گھنٹوں قبل ایم کیو ایم کے کچھ ہمدردوں کے گھروں پر چھاپے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ واقعہ پر مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار جناب عمران اسماعیل نے بجا طور پر اِس خدشے کا اظہار کیاکہ ایسی کارروائیاں انتخابی نتائج پر غیرضروری اثر ات مرتب کرسکتی ہیں۔ پھر پولنگ کے نتائج سامنے آتے ہی اِن کو اپنی کہی بات پر کامل یقین ہوگیا ہوگا کہ بے شک ’’مظلومیت‘‘ اور ’’بے بسی‘‘ کا عنصر خاص طور پر دنیا کے اِس خطے میں عوامی رجحانات پر اثرانداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

تازہ ترین