• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے دوست نے گھبرائی ہوئی اور راز دارانہ آواز میں کہا علی کم از کم دو ماہ کا راشن لے آئو اور اسٹور کرلو ۔میں نے کہا کیوں خیریت تو ہے … یار علی تم اچھے جرنلسٹ ہو تمہیں معلوم نہیں حالات کس طرف جارہے ہیں… ہاں ہاں میں تمہیں بڑی اندر کی خبر دے رہاہوں کہ پہلے فیز میں راولپنڈی اسلام آباد اور پھر پورے ملک میں کرفیو لگایا جارہاہے… میرے بھائی ٹرانسپورٹ، آمدو رفت سب بند ہوجائیگی ،تم گھر سے باہر نہیں نکل سکو گے ،کھانے پینے کی کوئی چیز مل نہیں سکے گی اور اگر ملے گی بھی تو سونے اور چاندی کے بھائو میں ایک برگر ملے گا، میں ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا پھر بھی تھوڑا سا ڈر سا گیا کہ کیا واقعی ایسی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔
انہیں طوفانی دوستوں میں سے ایک اور نے فون کیا کہ یار علی سنا ہے کہ فیض آباد سے ایک ٹرک پکڑا گیا ہے جس میں ڈنڈوں، کلہاڑیوں کے علاوہ بہت سارا اسلحہ بھی تھا اور معلوم ہوا ہے کہ آئی ایٹ اسلام آباد میں بہت سے گھروں میں خطرناک نوعیت کا اسلحہ چھپا رکھا ہے اور پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی اطلاعات ہیں اور آج رات آئی ایٹ ،اسلام آباد میں گھر گھر تلاشی شروع کی جارہی ۜہے ، ایک اور مہربان نے ایس ایم ایس بھیجا کہ سارے موبائل ٹیپ کئے جارہے ہیں، وٹس ایپ ، فیس بک پر سخت چیکنگ ہورہی ہے اس لئے بہت احتیاط کرنی ہے ، کیونکہ شک پڑنے پر گرفتار کرکے اٹک قلعہ میں قید کردیا جائیگا اور اس کیلئے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں بہت سارے دوست یہ تھیوری بھی بیان کرتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے ملکر حکومت کے خلاف پلان بنایا ہے اور انہی کی آشیر باد سے یہ مولانا حضرات اکٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس خطرنک اسلحہ موجود ہے ، بابا اسکرپٹ بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے ان کی تھیوری یہ تھی کہ اعلیٰ حکومتی شخصیت نے ان دھرنے والوں کو تیار کیا ہے اور ان کا سارا خرچہ بھی حکومت بلکہ مسلم لیگ(ن) برداشت کررہی ہے اور مقصد فوج کو بدنام کرنا ہے ، گزشتہ تین چار ہفتوں سے ہم یہی گفتگو سنتے آرہے ہیں سونے پہ سہاگہ یہ ہوگیا کہ پیمرا نے پرائیویٹ چینلز کی نشریات بند کردیں ایسے میں ڈس انفارمیشن پھیلانے والی فیکٹریاں اور بھی سرگرم ہوگئیں اور پھر جتنے منہ اتنی باتیں ،لیکن اس دھرنے اور اس قسم کی تمام سرگرمیوں میں ہم نے یہی محسوس کیا ہے کہ پورے شہر میں کنٹینرز لگا کر بند کردیا جائے، سڑکوں پر خندقیں کھوددی جائیں ، زیادہ حالات خراب ہوں یا خطرات پیدا ہو جائیں تو موبائل فون سروس بند کردی جائے لیکن اس حکومت نے تو حد کردی کہ کنٹینرز سے لیکر سوشل میڈیا اور سب کچھ بند کردیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پیر کی صبح سے حالات نارمل ہونا شروع ہوگئے ہیں ، راستے کھلنا شروع ہوگئے، دھرنے والوں کے قافلے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہورہے ہیں، کئی ہفتوں سے بند دکانوں کے شٹرز کھولے جارہے ہیں، آنسو گیس کے دھوئیں اور اڑنے والی گرد صاف کی جارہی ہے لیکن کیا یہ سب کچھ پہلے نہیں ہوسکتا تھا ، سڑکوں پر لوگوں کے دم توڑنے سے پہلے یہی حکمت عملی نہیں اپنائی جاسکتی تھی ؟ اگر غلطی تھی تو پھر اکڑ کس بات کی تھی، اگر ملک عزیز تھا تو پھر مقابلہ کیسا ، عوام کی جان و مال کی اگر حفاظت کرنا تھی تو پھر دھمکیاں کیسی، اپنے ہی ملک اور اپنی ہی ریاست کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے سے کیا دین کی خدمت ہورہی ہے؟ محترم ، جناب ، آپ سے تم اور توں اور اوئے کا کلچرہمیں کہاں پہنچائے گا، کیا اب ہمارے ملک میں ہر جائزو ناجائز مطالبہ منوانے کیلئے دھرنا ہی دیا جائیگا، شاہراہیں بند کردی جائیںگی، پتھر اور گولی کے ذریعے بات ہوگی یا پتھر اور گولی کے بعد بات ہوگی، اپنی اپنی انا کیلئے اپنے اپنے مفاد کیلئے یہ لڑو، لڑائو اور ٹکرائو کی پالیسی یونہی چلتی رہےگی، عوام کو کنفیوز اور مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیا جائیگا اور ہماری نوجوان نسل جو یہ سوچتی ہے کہ اپنے ہی ملک میں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے ہمیں کسی دوسرے ملک کا رخ کرنا ہے اس سوچ کو اور مضبوط کرنا ہے ؟ کیا یہ شکست کی جیت ہوئی یا جیت کو شکست؟ اللہ کا شکر ہے کہ ایک بحران ٹل گیا، آئیں مل کر کسی نئے بحران کا انتظار کریں کیونکہ ہماری اناپرستی میں اس طرح کے بحران آتے رہیںگے۔

تازہ ترین