• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً سات سال پہلے کا ذکر ہے۔ میں اُن دِنوں سیکرٹری تجارت کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ ایک روز ہندوستان کے ہائی کمشنر نے ملاقات کی درخواست کی۔ مجھے علم تھا کہ وہ کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ ایک دن پہلے ہی وزارتِ تجارت نے پاکستان سے ہندوستان کو واہگہ کے راستے پیاز کی برآمد روک دی تھی۔ ہندوستان کو اِس فیصلے پر اعتراض تھا۔
ہائی کمشنر، شرت سبھروال کا تعلق ہندوستانی پنجاب کے ضلع جالندھر سے تھا۔ کیریئر افسر تھے، سمجھ دار اور سلجھے ہوئے۔ اُنہوں نے درخواست کی کہ پاکستان کو یک طرفہ پابندی ختم کر دینی چاہئے۔ اُن کے مطابق نہ صرف یہ عمل بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی تھا بلکہ تجارتی تعلق کو بھی متاثر کر سکتا تھا۔
ہماری یک طرفہ پابندی ایک غیر معمولی صورتِ حال کا نتیجہ تھی۔ چند ماہ پہلے ہندوستان میں پیاز کی فصل خراب ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے قیمت بیس پچیس روپے فی کلو سے بڑھ کر سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ قیمت ایک سو ساٹھ روپے کے قریب تھی۔ پاکستان سے پیاز ہندوستان برآمد ہونا شروع ہوا۔ واہگہ کے راستے پر ٹرکوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ پاکستان میں بھی قیمت بڑھنے لگی۔ تیس سے پچاس اور پھر اسّی روپے فی کلو۔ خدشہ تھا کہ ہندوستان میں نئی فصل آنے تک ہمارے ہاں پیاز کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو تک پہنچ جائے گی۔ ہمارے کاشت کار اور تاجر خوش تھے مگر پیاز کی قیمت عام صارفین کی قوتِ خرید سے زیادہ ہو رہی تھی۔ زمینی راستے سے برآمد پر پابندی لگنے سے قیمت میں اعتدال آ گیا، کیونکہ کراچی کے راستے پیاز کی باربرداری میں خرچ بھی زیادہ تھا اور وقت کا ضیاع بھی۔ صرف ہندوستان کی حکومت ناراض ہوئی اور ہمارے کاشت کار بھی ناخوش ہوئے، مگر صارفین مطمئن رہے۔
اچھی حکمرانی ایک مشکل کام ہے۔ فیصلہ کرتے وقت مختلف طبقوں اور گروہوں کے مفادات کے درمیان توازن قائم رکھنا بہت سنجیدہ عمل ہے۔ ذرا سی غلطی یا صوابدیدی اختیارات کا غلط استعمال شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ کبھی کبھار صوابدیدی اختیارات کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ اپنے حمائتیوں کے حق میں فیصلے کئے جاتے ہیں اور اِس طرح کی مالی سرپرستی سے بدعنوانی جنم لیتی ہے۔
حکومت کا فیصلہ پاکستانی صارفین کے حق میں تھا۔ اور یہ پابندی اُس وقت تک برقرار رکھی گئی جب تک ہندوستان میں نئی فصل کے آنے سے قیمتوں میں استحکام پیدا نہ ہوا۔ مگر ہر دفعہ واہگہ کے راستے ترسیل بند کرنے کا فیصلہ ملک کے مجموعی مفاد میں نہیں ہوتا۔ 2007ء میں ہمارے ہاں کپاس کی فصل خراب ہو ئی۔ اِس کمی کو درآمدی رُوئی سے ہی پورا کیا جا سکتا تھا۔ پاکستانی فیکٹری مالکان نے ہندوستانی تاجروں سے رُوئی درآمد کرنے کے معاہدے کر لئے۔ شوکت عزیز پرائم منسٹر تھے اور میں اُس وقت سیکرٹری ٹیکسٹائل۔ درآمدی رُوئی ہندوستانی پنجاب اور مدھیا پردیش سے پاکستان آنا تھی، مگر واہگہ کے راستے درآمد پر پابندی لگا دی گئی۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ ہمارے پاس واہگہ میں درآمدی رُوئی پر دوائی چھڑکنے کا انتظام نہ تھا۔ پابندی ختم کروانے کے لئے ٹیکسٹائل کی وزارت یہ کیس ای، سی، سی یعنی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پاس لے گئی۔ کمیٹی کے سامنے بیان کیا کہ سمندری راستے سے روئی ہریانہ یا بٹھنڈہ سے پہلے ہندوستانی بندرگاہ بھیجی جائے گی اور پھر سمندری جہاز سے کراچی پہنچے گی۔ کراچی سے ٹرکوں یا ٹرین کے ذریعے اُسے لاہور، شیخوپورہ اور فیصل آباد کی فیکٹریوں میں لایا جائے گا۔ اِس باربرداری پر کروڑوں ڈالر اضافی خرچہ آئے گا جو فیکٹری مالکان پر غیر ضروری بوجھ ہو گا۔ اجلاس کے شرکاء کو بتایاگیا کہ کپاس کا شعبہ ہماری برآمدات میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور ہمیں اپنے ایکسپورٹر کو سہولت دینی چاہئے نہ کہ اُن پر اضافی بوجھ ڈال دیاجائے۔ مگر ہماری بات نہ مانی گئی کیونکہ اُس وقت کی کابینہ میں دو وزیروں کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ درآمدی کپاس کی قیمت زیادہ ہو، تاکہ جنوبی پنجاب کے کسانوں کو کپاس کی بڑھی ہوئی قیمت کا فائدہ برقرار رہے۔ پاکستانی برآمدات پر اِس فیصلے کے مضر اثرات سے اُنہیں سروکار نہ تھا۔
واہگہ بارڈر کے ذریعے تجارت کی ایک اپنی سیاست ہے۔ واہگہ کے راستے زرعی اشیاء کی تجارت عام طور پر متنازع ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے پر کسانوں کی ہر تنظیم کا دوہرا معیار ہوتا ہے۔ اگر ہندوستان میں کسی پھل یا سبزی کی فصل خراب ہو اور قیمت بڑھ جائے تو سب اُسے پاکستان سے برآمد کرنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ اُنہیں غرض نہیں ہوتی کہ برآمد بڑھنے سے قیمت عام صارف کی قوتِ خرید سے زیادہ ہو جائے گی۔ البتہ اگر کسی شے کی قلت ہو اور قیمت بڑھنے لگے تو کوشش ہو گی کہ اُس کی برآمد پر فوری پابندی لگوا دیں۔
ایک دفعہ میٹنگ کے دوران ایک کاشت کار تنظیم کے نمائندے نے اپنے مؤقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی پنجاب کی حکومت کاشت کاروں کو ٹیوب ویل چلانے کے لئے بجلی مفت دیتی ہے۔ اِس وجہ سے اُن کی سبزیاں، پھل اور اجناس سستی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لئے کوئی ایسی اسکیم نہیں، اِس لئے ہندوستان سے برآمد کی اجازت نہ دی جائے۔ میرا مؤقف تھا کہ اگر ہندوستانی پنجاب کی حکومت اپنے ٹیکس گزاروں کی رقم سے سبزیوں کی لاگت کم رکھتی ہے اور اُس کا فائدہ پاکستانی صارفین کو پہنچ رہا ہے تو اعتراض اُن کے ٹیکس گزاروں کو ہونا چاہئے نہ کہ ہمارے صارفین کو۔ ہاں البتہ اگر کاشت کاروں کا نقصان ہو تو کارروائی کی جا سکتی ہے۔
معزز قارئین، گروہی مفادات کا تحفظ کرنے والوں کو یہ منطق سمجھ نہیں آتی کہ آزادانہ تجارت سے عام صارفین کو فائدہ ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام عام طور پر غریب ہیں۔ اُن کے لئے پیاز، ٹماٹر اور دیگر اجناس کے نرخ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں پاکستان میں ٹماٹر کی قیمت دو سو روپے فی کلو سے بھی زائد ہو گئی۔ اِس دوران پاکستان میں کاشت کاروں اور تاجروں نے بہت منافع کمایا۔ صارفین لٹتے رہے۔ ہندوستان سے مناسب قیمت پر درآمد ممکن تھی۔ ٹماٹر کی قیمت آدھی ہو جاتی مگر واہگہ کے راستے درآمد کی اجازت نہ دی گئی۔ اُن دِنوں پنجاب اسمبلی کے ایک رُکن نے برملا کہا کہ ہندوستانی ٹماٹر پاکستانی سرزمین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اُنہوں نے درآمد رکوانے کے لئے ہندوستان سے خراب تعلقات کی آڑ لی۔ مُجھے اِس بیان پر حیرت ہوئی کیونکہ سیاست اور تجارت کا محور تو صارفین کی بھلائی ہونا چاہئے ۔ مگر واہگہ کے راستے تجارت کی سیاست ایسی ہے کہ ذاتی یا گروہی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے عام صارفین کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔

تازہ ترین