• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک سرد شام تھی سورج ڈھلنے کے سارے مناظر اس میں شامل تھے ،آنگنوں میں اترتے ہوئے اندھیرے میں روشنیوں کی رونق بھی شامل تھی یہ وہ دن تھے جب شریف فیملی ایک تحریری معاہدے کی صورت میں ملک سے جا چکی تھی جبکہ ن لیگ کی پوری قیادت قوم سے مسلسل جھوٹ بول رہی تھی، انہی دنوں میں نیب نے پورے ماحول کو خوفزدہ کر رکھا تھا ملکی مسائل کے حل کی چاہت میں میری تجویز تھی کہ کرپٹ لوگوں کی گردنیں اڑا دی جائیں ۔جرنیل نے میری طرف غور سے دیکھا متوجہ ہوا اور بولا ’’وہ کیسے ممکن ہو گا ؟‘‘ میں نے پھر سے جملہ دہرایا کہ اگر آپ ملک درست کرنا چاہتے ہیں تو گردنیں اڑانا ہوں گی، ساتھ ہی پوچھ لیا کتنی آبادی ہے اس ملک کی؟
جرنیل بولا ’’سولہ سترہ کروڑ‘‘
میں نے کہا تو پھر سولہ ہزار لوگوں کی گردنیں ان کے تنوں سے جدا کر دی جائیں۔
جرنیل گویا ہوا ’’اتنی بڑی تعداد‘‘
میں نے تلخ لہجے میں کہا اگر سولہ ہزار کے سر قلم نہیں کر سکتے تو سولہ سو لوگوں کے سر ہی اڑا دو
جرنیل کہنے لگا ’’بہت مشکل ہے ‘‘
پھر یہ خاکسار بولا کہ اگر یہ بھی مشکل ہے تو پھر چار سو افراد کی گردنیں تو لازمی اڑا دو ۔میری اس عاجزانہ پیشکش پر جرنیل کہنے لگا ’’یہ بہت مشکل کام ہے، یہ سب کچھ کرنا آسان نہیں ‘‘
اس نہیں کے جواب میں مجھے کہنا پڑا کہ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہ ملک بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا، بس اس کے بعد کچھ ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ نیب کا پہلے جیسا خوف نہ رہا، پھر سیاست شروع ہو گئی اس کے بعد حکومتوں کا آنا جانا شروع ہو گیا، کئی سال گزر گئے میں آج بھی اپنے پرانے موقف پر قائم ہوں کہ جب تک کرپٹ لوگوں کے سر قلم نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک ملک نہیں سدھرے گا، نظام ٹھیک نہیں ہو گا، حکمرانی کا تقاضا یہی ہے کہ نظام سیدھا کرنے کیلئے کچھ لوگوں کو سیدھا کرنا پڑتا ہے۔اگر سیدھا نہ کیا جائے تو پھر حالات سیدھے نہیں ہوتے۔
کرپٹ ترین افراد کی گردنیں اڑانے کا عمل ظلم نہیں ہے بلکہ یہ ایک بڑے انسانی معاشرے کو صاف کرنے کا خوبصورت عمل ہے ، یہ کوئی عجیب بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا کے کئی ملکوں میں یہ عمل ہو رہا ہے، دنیا کے کئی ممالک میں کرپشن کی سزا موت ہے۔ہماری ہمسائیگی میں چین کو دیکھ لیجئے جہاں سینکڑوں وزراء کی گردنیں محض اس لئے اڑائی گئیں کہ انہوں نے کرپشن کی تھی، چین جیسے معاشرے میں لوگ کرپشن پر سزا سنائے جانے کے بعد خودکشیاں بھی کر لیتے ہیں، حال ہی میں ایک چینی جرنیل نے خودکشی کی ہے چین کی ترقی میں محنت اور حکمت عملی کے علاوہ سب سے بڑا کردار اس بات کا ہے کہ وہاں کرپشن کو برداشت نہیں کیا جاتا۔آپ کوریا کو دیکھ لیں جہاں کرپٹ افراد کو توپ کے سامنے کھڑا کرکے اڑا دیئے جانے کے مناظر دنیا کو یاد ہیں کئی اور ملکوں کی بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر ہم اپنا رونا کس کے سامنے روئیں کہ یہاں تو معاشی دہشت گرد د ندناتے پھر رہے ہیں یہاں چوروں کی بارات موج کر رہی ہے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کے بعد ایک نیا ڈائیلاگ خاصا مشہو ہوا ہے کہ ’’تمہیں اس سے کیا؟‘‘ یعنی اگر میرے اثاثے میری آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں اس سے کیا ؟
پاکستان میں لوگ کرپشن کرتے ہوئے ڈرتے نہیں، بے خوف وخطر جرائم کرتے ہیں منشیات فروخت کرتے ہیں، ملکی دولت کو لوٹتے ہیں اگر نیب کسی کو پوچھے تو یہاں کا وزیر اعظم کہتا ہے کہ ’’نیب معصوم لوگوں کو تنگ کرتا ہے‘‘یہاں کے وزیر کہتے ہیں کہ ’’نیب کے پر کاٹ دینے چاہئیں ‘‘ ایک وزیر اعلیٰ کرپشن کے مقدمات کھلنے پر سیخ پا ہوتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ ’’نیب کرپٹ ترین ادارہ ہے ، نیب میں کرپشن ہے‘‘۔
کمپنیز کا اسکینڈل سامنے آتا ہے اکثر محکموں میں کرپشن کی داستانیں ایسے نظر آ رہی ہیں جیسے دریائوں میں کشتیاں نظر آتی ہوں، آڈٹ ہوتا ہے تو نشاندہی ہوتی ہے کہ ہمارے محکمہ خوراک میں ایک ارب روپے سے زائد کی کرپشن ہے ۔یہ کرپشن اس صوبے کے محکمہ خوراک میں ہوئی جس کی ’’شاندار‘‘ کارکردگی کی مثالیں دیتے ن لیگی ترجمان تھکتے نہیں، جن کے بارے میں نام لیکر فواد چودھری نے کہا کہ ’’اب باہر آ جائو کیونکہ دھرنا ختم ہو گیا ہے‘‘
پاکستان کو لوٹنے والے سب چوروں کو سزائیں ملنی چاہئیں، مغربی ملکوں میں لگے دولت کے انباروں کا حساب بے باک ہونا چا ہئے ۔میرے نزدیک تو وہ تمام ممالک بھی قصور وار ہیں جو میرے ملک سے چرائی ہوئی دولت کو محفوظ بنانے کی جگہ دیتے ہیں، جن کے بنکوں میں میرے ملک کی دولت پڑی ہے جو صرف لوٹی ہوئی دولت ہی اپنے ملکوں میں نہیں رکھتے بلکہ میرے ملک کے لٹیروں کو پناہ بھی دیتے ہیں، انہیں رہنے کی جگہ دیتے ہیں، ان ملکوں میں وہ ملک پیش پیش ہیں جو پاکستان کے ایک غیر مسلم قرار دیئے گئے طبقے کو مسکراہٹوں کے ساتھ ویزہ دیتے ہیں یہ سب ملک قصور وار ہیں ایسے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر بھی غور ہونا چاہئے ۔
آج کل دھرنوں کا موسم ہے اسلام آباد سے دھرنا ختم ہوا، لاہور میں جاری ہے اور ابھی کچھ اور دھرنوں کی تیاری ہو رہی ہے دھرنوںکے کچھ اور اثرات سامنے آنے والے ہیں چونکہ آج کل وساطت سے معاہدے ہو رہے ہیں مجھے بھی میرے ایک دیرینہ دوست افتخار عارف کے چند اشعار صمصام بخاری کی وساطت سے ملے ہیں ایک سیاست دان اور پیر کی وساطت سے آئے ہوئے افتخار عارف کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
جاہ وجلال، دام ودرم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار، عہد ستم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر

تازہ ترین