• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی ڈی اے نے بھی آغا ناصر کی خدمات کے اعتراف میں، ایک سڑک کانام، ان کے نام پررکھ دیا ہے۔ آغا صاحب زندگی کے آخری دنوں میں شاید پہلی مرتبہ ، بستر سے نہ اٹھ سکے۔ ورنہ ہرروز کسی نہ کسی جلسے ،مذاکرے یا کبھی پارٹی میںہنستے مسکراتے آغا ناصر، ہمیشہ صفیہ کے ساتھ نظر آتے تھے ۔ یوں تو بہت لوگ اپنی سرگزشت تحریر کرتے ہیں، جنم کہانی سے لیکر زندگی کے سارے تجربات بیان کرتے ہیں مگر آغا صاحب کی عمر کہانی واقعی پاکستان کہانی ہے، ایک شخص جس نے ابھی میٹرک بھی نہیں کیا، وہ خاندان کے ساتھ کیسے پاکستان، کتنی ٹرینیں بدل کر آیاگیا ۔ تعلیم، نوکری،شادی اور پھر دنیابھرکے تمام معروف لوگوں سے ملاقاتیں جن کے بارے میں ہم سوچتے ہی رہ گئے۔ کیا یاسر عرفات، بھٹو صاحب، بے نظیر بی بی اور کیا کہوں کہ انہوں نے تو ضیاالحق اور نوازشریف کے ساتھ تصاویر شامل کرتے ہوئے خود کو ایک متوازن شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ویسے بھی ٹی وی اور ریڈیو جیسے اداروں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن رہنا اور پھر کسی سے بیر کیسے رکھا جاسکتا ہے۔
آغا ناصر کی عمر کہانی نے مجھے اپنے بہت سے پرانے دوست یاد کرائے ہیں۔ سلیم احمد ہو کہ سلیم عاصمی، زبیر احمد ہوکہ فضل کمال ، فیض صاحب ہوں کہ احمد فراز، نخشب چار جوی ہوں کہ اسلم اظہر ، امرائوبندوخاں کہ خلیل احمد، شوکت صدیقی سے شوکت تھانوی تک ، سب سے بے پناہ محبت، مگر ہر جگہ اور ہر لمحہ، ذوالفقار بخاری کو اسلئے یاد کیا کہ چاہے، ریڈیو پر کام کرنا کہ ٹی وی پر کہ محرم میں مرثیہ اور سلام پڑھنا، یہ سب روئیے اور طرز گفتگو سیکھا مگر برا نہیں لگتا کہ نگر نگر ٹریننگ کے لئےجانا، دوست بنانا، ٹی وی کو اور بہتر کرنا ۔ شاید آپ کو یاد ہوکہ خواجہ معین کے سارے ڈرامے جس میں تعلیم بالغاں بھی شامل ہے۔ آغا ناصر کی محنت سے ٹی وی پر پیش کئے گئے۔ اسطرح پاکستان اور ٹی وی کی زندگی مشکل ترین لمحوں یعنی1965کی جنگ، 1971کے واقعات اور بنگال کا الگ ملک بننا ، اوجڑی کیمپ کا حادثہ ، ان سارے حالات کو ایک رپورٹر کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ کہیں بھی توہماری طرح جذباتی نہیں ہوئے ۔ البتہ1970 کی الیکشن ٹرانسمیشن کی باگ ڈور چونکہ انہی کے ہاتھ میں تھی، اسلئے وہ کامیابی انہیں کیا ہم سب کوبہت اچھی طرح یاد ہے۔البتہ انہوں نے اپنے اوپر ڈپریشن کے دورے پڑنے کا حوالہ بھی دیا ہے مگر وہ سب حوالے کبھی نوکری سے نکالے جانے ، کبھی دوسرے شعبے میں لگائے جانے اور کبھی حاکم وقت وہ بھی ضیا الحق جیسوں کی اخبار ، کتاب، ریڈیو، ٹی وی پر سنسرشپ کا تذکرہ کیا ہے مگر بھٹو پھانسی کے بارے میں بس ایک سطر لکھ کر، آگے شاید نہیں بڑھا سکتے تھے کہ حکم حاکم ماننے میں انکا کوئی ثانی نہیں تھا ، اس طرح ضیا کے جہاز کے فضا میں پھٹ جانے میں بھی انکا بیانیہ ، غیر جانبدار ہی رہا ۔ یوں تو میں بھی سرکاری ملازم تھی ، مگر آغا ناصر نہیں ہوسکتی تھی بہت محبت سے انہوں نے میرے گھر اور دعوتوں کا ذکر کیا ہے۔ البتہ انہوں نے یا تو میری شاعری پڑھی ہی نہیں یا پھر قابل ذکر ہی نہ جانا۔
سلیم احمد کے استعمال کی ہوئی تراکیب جس میں درفنطنی اوتھر اور فوتھر جیسی تراکیب کو مزے لیکر بیان کیا ہے۔ درفنطنی اب تک منوبھائی خوب استعمال کرتا ہے۔ یہیں مجھے اصغر ندیم سید کے تازہ افسانوی مجموعے کا ذکر یاد آگیا۔ وہ سارے جبر ، نفرتیں، بندشیں اور وہ سیاسی کردار ، جنہیں ہم نے زندگی کرتے ہوئے اور المناکیوں سے گزرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ وہ سب کہانی مجھے ملی میں بطور گواہ ، بطور رپورٹر اور کہیں کہیں کہانی کا منظر نامہ بناتے ہوئے لکھا ہے۔ مثلاً پشاور کے بچوں کے حادثے پر بہت افسانے اور نظمیں لکھی گئیں مگراس اذیت کو ہمارے کامن دوست مستنصر تارڑنے لکھا کہ جب و ہ یہ کہانی ’’ ترکھان‘‘ کراچی کے اویو پی کی کانفرنس میں سنا رہا تھا ۔ خود مستنصر اور سننے والے بھی جذباتی ہوگئے تھے۔ اصغر ندیم نے پاکستان کے تمام تر سیاسی حالات پربہت دردناک کہانیاں لکھی ہیں۔ وہ امن کی تلاش میں، پاکستان اور ہندوستان کے تمام تر فروعی جھگڑوں اور جسطرح ہماری نوجوان نسل کو برباد کیا ہے۔ وہ بہت تکنیکی سطح پر عمدگی سے پیش کیا ہے۔اصغر کی کہانیوں کا اسلوب موجود کہانیوں سے بالکل مختلف ہے۔ کہانی میں کہیں اس کے اندر کا ڈرامہ نگار بول پڑتا ہے تو کبھی وہ شاعر جس کو بھلانے کی وہ بہت کوشش کرتا ہے، و ہ اسکی تحریر پر حاوی آجاتا ہے۔
آغا ناصر اور اصغر ندیم سید کی تحریروں کا تقابل نہیں ہوسکتا ہر چند آغا ناصر کی اٹھان ایک ڈرامہ نگار کے طور پر ہوئی اور وضاحت انہوں نے اپنی عمر کہانی میں ایک ڈرامہ ، شامل کرنے کے علاوہ، اپنی زندگی ہی میں جو کچھ بڑے لوگوں نے انکے بارے میں لکھا ، وہ سب کچھ خود ہی شامل کردیا ہے۔ خود اتنے اچھے اور نیک تھے کہ آڈیشن کرتے ہوئے اگر کوئی لڑکی اچھی بھی لگی تواس تک بات پہنچانے سے گریز کیا۔ اصغر نے ڈرامہ، آغا ناصر سے بہت بہتر لکھا، ریڈیو اور ٹی وی کے ڈراموں میں فرق بھی ہوتا ہے۔ ٹی وی پر کردار کی آنکھیں، لکھی ہوئی تحریر نہیں بولتیں اور بھی بہت فرق ہے ٹی وی اور ریڈیو کے ڈرامے میں۔ اس طرح آغا ناصر اور اصغر ندیم سید کی تحریر ،اپنے اپنے زمانوں کوبیان کرتی ہے اصغر سیاسی گنجلک کے ان ورقوں کو پلٹ دیتا ہے۔ جو معلوم نہیں کیوں آغا ناصر نے بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ ادب اور زندگی کے ساتھ دونوں کا نبھائو اپنے اپنے رنگ میں دیر تک یاد رکھا جائے گا۔

تازہ ترین