• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور میں زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پرجمعہ کے روز عین اس وقت دہشت گردوں کا خوں ریز حملہ جب پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں میں کروڑوں مسلمان رحمت اللعالمین ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی مناسبت سے ذکر نبیؐ کی محفلیں سجا کر عقیدت و محبت کے جذبات کا اظہار کررہے تھے، شقاوت اور سنگ دلی کا ایسا مظاہرہ ہے جو دہشت گردی کے ذمہ دار عناصر کے راہ گم کردہ راہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق دہشت گردی کی اس واردات کو افغانستان سے کنٹرول کیا جارہا تھا، دہشت گرد افغانستان میں مقیم اپنی قیادت سے رابطے میں تھے جبکہ تحریک طالبان پاکستان سوات گروپ نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے جس کی قیادت یقینی شواہد کے مطابق افغانستان میں محفوظ ٹھکانے رکھتی ہے۔حملے میں نو افراد جاں بحق اور پینتیس زخمی ہوئے ،حملے کے فوراً بعد پولیس، فوج اور ایف سی کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں آئی ایس پی آر کے مطابق تینوں دہشت گرد بھی مارے گئے تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کے بقول ایک دہشت گرد گرفتار بھی ہوا تھاجس سے تفتیش کی جارہی تھی۔ یہ بات انہوں نے زخمیوں کی عیادت کے لیے خیبرٹیچنگ اسپتال کے دورے کے موقع پر میڈیا کو بتائی۔ ایسا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اس کارروائی کے پس پردہ حقائق بے نقاب ہوں گے جن سے اس کے اصل ذمہ داروں کا تعین بھی ممکن ہوگا اور مزید احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جاسکیں گی۔ خیبرپختون خوا کی حکمراں جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،صوبے کے وزیر اعلیٰ، گورنر اور آئی ایس پی آر کے سربراہ سمیت سب کی جانب سے پولیس اور فوج کی بروقت اور ماہرانہ کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا نہ ہوتا تو جانی نقصان بہت بڑے پیمانے پر ہوسکتا تھا۔لیکن اصل قابل توجہ اور تحقیق طلب بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کو عمارت میں داخل ہونے کا موقع ہی کیوں ملا جبکہ پچھلے چھ سال میں ملک کے پینتیس سے زیادہ تعلیمی ادارے دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر خیبرپختون خوا کے ہیں۔اب تک منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق دہشت گردوں نے برقعے اوڑھ رکھے تھے جبکہ ہلاک ہونے والے دہشت گردجس ساز وسامان کے ساتھ تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے پولیس کے مطابق اس میں متعدد کلاشنکوف بندوقیں، تین خود کش جیکٹس، آٹھ دستی بم،دو آئی ای ایم ڈیز بم اور دیگر ہتھیار شامل تھے۔ اتنا بھاری سازو سامان محافظوں کے نوٹس میں آئے بغیر تین افراد کا برقعوں میں چھپاکر ہاسٹل میں داخل ہوجانا بالکل ناقابل فہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمارت کے محافظوں کی نگاہوں سے یہ سب کچھ اوجھل کیسے رہا، اور اگر انسٹیٹیوٹ کی حفاظت پر محافظ مامور ہی نہیں تھے یا ڈیوٹی پر ہونے کے باوجود اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے تھے تو اس شدید کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے ۔ آئندہ ایسے سانحات سے بچاؤ کے لیے لازمی ہے کہ صوبے کی تمام تعلیم گاہوں سمیت اہم مقامات کی مؤثر سیکوریٹی یقینی بنائی جائے اور مکمل تلاشی کے بغیر کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔پشاور کا یہ تازہ سانحہ اس حقیقت کا ایک اور ناقابل تردید ثبوت ہے کہ پاکستان میں دراندازی افغانستان سے ہورہی ہے اور امریکی قیادت کی جانب سے اس ضمن میں پاکستان کے خلاف کی جانے والی مسلسل الزام تراشیاں حقیقت کے منافی ہیں جن کی پرزور تردید وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک روز قبل کی ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بارڈر مینجمنٹ کی بہتری کے لیے پاکستان کی کوششوں میں افغان حکومت کی جانب سے فراخدلانہ تعاون اور امریکی قیادت کی تائید کے ساتھ ساتھ قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل کی بحالی ضروری ہے جس کی خواہش کا اظہار صدر اشرف غنی نے بھی حال ہی میں ایک بار پھر کیا ہے لیکن اس کے لیے تمام فریقوں کی جانب سے ہوشمندی ، تحمل اور نیک نیتی سے کام لینا ضروری ہے۔

تازہ ترین