• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ایک ماہ سے ہمارے ملک میں گالیوں کابہت واویلا ہے، ٹی وی پروگراموں میں گالیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا میں گالیوں سے لبریز کلپ ایک دوسرے کو بھیجے جا رہے ہیں، کہیں ڈنڈا بردار نوجوان کسی صحافی کو مارتے ہوئے اسے ننگی گالیاں دے رہے ہیں تو کہیں کسی باریش حضرت کے منہ سے ’’پھول جھڑ‘‘ رہے ہیں، لوگ ایک دوسرے کو انہی حضرت کی ایجاد کی گئی گالیو ں کی پیروڈی شئیر کر کے ایمان تازہ کر رہے ہیں۔ اگر بیرونی دنیا سے کوئی انجان شخص ہمارے ملک کا دورہ کرے اور دیکھے کہ ہمارا ٹویٹر ٹرینڈ بھی ایک گالی ہے اور پورے ملک میں چار ُسو گالیوں کا اتوار بازار سا لگا ہے تو وہ سوچے گا کہ یقیناً یہ ٹرینڈ آوارہ قسم کے لوگوں کی ذہنی اختراع ہے یا شاید ذہنی کج روی کے شکار لوگ اسے بڑھاوا دے رہے ہیں، مگر یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی کہ مملکت خداد پاکستان میں دشنام طرازی کا یہ ٹرینڈ اُن لوگوں کی مرہون منت ہے جو دین اسلام کی سربلندی کا جھنڈا لہرائے ہوئے ہیں ۔
گالیاں دینے والے لوگوں سے آج کل جب پوچھا جارہا ہے کہ جناب ہمارا دین تو امن و آشتی کا دین ہے، سلامتی کا دین ہے، اس آقائے دو جہان ﷺ کا دین ہے جو رحمت اللعالمین ہیں ،اس نبی ﷺ کا دین ہے جس کی سیرت مبارکہ پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد کی گنتی ممکن نہیں، پوری تاریخ عالم میں کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہیں، یہ کائنات کی اُس واحد ہستی کا دین ہے جس پر مسلسل چودہ سو برس سے اربوں مسلمان درود و سلام بھیج رہے ہیں اور ایک لمحہ ایسا نہیں آیا جب اس عمل میں تعطل ہوا ہو، جن کے بارے عائشہ صدیقہ ؓنے فرمایا کہ آ پ ﷺ سراپا قران ہیں تو ایسے دین کے پیروکار اور محمد ﷺ کے نام لیوا کس طرح اپنے اِس عمل کو جواز دے سکتے ہیں،اِس بات کے جواب میں اُسی قسم کی تاویلیں سننے کو ملتی ہیں جیسی طالبان کی حمایت میں گھڑی جاتی تھیں۔ جب طالبان کسی اسکول، دربار، مزار، بازار، دفتر یا سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے تھے تو اُس وقت وہ دین کی رو سے اپنے اس عمل کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کسی کو یقین نہیں تو اس زمانے کے اخبارات نکال کر دیکھ لے، حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اُن کے کلپ دیکھ لے یا خودکُش بمباروں کے انٹرویو دیکھ لے ..... مگر پاکستان سمیت پورے عالم اسلام نے ایسی تمام تاویلیں مسترد کر دیں، تمام علمائے کرام کے اِس پر متفقہ فتوے موجود ہیں کہ یہ سب دہشت گردی اور فساد فی الارض ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، قران و حدیث سے اس کا جواز نکالنا اسلام کو بدنام کرنا ہے، اس موقف پر اب کوئی دوسری رائے نہیں، وہ تمام تاویلیں اور نام نہاد دلائل جو خودکش بمباروں کے لئے گھڑے جاتے تھے آج باطل ثابت ہوچکے ہیں۔ اب ایک نئی تاویل تراشی جا رہی ہے اور بالکل اسی طرح تراشی جا رہی ہے جس پیرائے میں طالبان کے لئے تراشی گئی تھی، کیا یہ حران کن نہیں کہ دشنام طرازی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ بھی دشن کے لبادے میں اور یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ چونکہ حضرت صاحب کی زبان سے ’’پھول جھڑنے‘‘ سے رک نہیں سکتے سو اِس کا دین میں کوئی حوالہ تلاش کرو، یار لوگوں نے یہ کام بھی کر دکھایا ہے۔ انا للہ انا الیہ راجعون۔
ہماری یادداشت چونکہ کچھ کمزور ہے سو ضروری ہے کہ چند باتیں دہرا لی جائیں۔ جولائی 2010میں داتا دربار میں بم دھماکہ ہوا ،42افراد اس میں شہید ہوئے، 175زخمی ہوئے ،وہ جس کے در سے کروڑوں افراد، ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان سینکڑوں برس سے فیض یاب ہو کر جاتے تھے، بدبختوں نے اسے بم کا نشانہ بنایا، کئی سو سال میں پہلی مرتبہ علی ہجویری ؓ کا یہ مزار جمعہ کے روز بند ہوا ،داتا کی نگر ی اجڑ گئی۔ حضرت علی ہجویریؓ ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ، معین الدین چشتی ؓہوں یا فرید الدین گنج شکرؓ، ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ ان اولیائے کرام کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلی ہو جس سے کسی کی ذرہ برابر بھی دل آزاری ہوئی ہو، گالی دینا تو بہت دور کی بات ہے، ان بزرگان دین کی تعلیمات ہم اپنے بچو ں کو اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، ان کے صبر و استقامت، بردباری اور حلیمی تو ضرب المثل ہے، ان سے زیادہ دین کی سوجھ بوجھ تو کسی میں نہیں تھی تو پھر ایسی کون سی بات ہے جو ان بزرگان دین نے ہمیں نہیں بتائی یا جس کا خود انہیں علم نہیں تھا اور آج کے حضرت صاحب کو اُن اولیا سے زیادہ علم ہے جس کی وجہ سے ان کا تلخ ترین طرز گفتار جائز ٹھہرا؟ امام ابو حنیفہؒ ،امام احمد بن حنبلؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، پھر ان کے بعد امام غزالی، ابن عربی اور ذرا آگے آ جائیں تو مولانا مودودی، علامہ محمد اسد اور کتنے ہی درخشاں نام ہیں مسلمانوں کے پاس، کیا اِ ن میں سے کبھی کسی نے اسلام کی یہ تشریح بیان کی جو آج ہمیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہے، کیا یہ کوئی نئی تشریح ہے جو اس سے پہلے کسی امام، کسی عالم کے ذہن میں نہیں آئی؟؟؟ اسلام اور سیرت طیبہ ﷺ پر لاکھوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، قران کی ہزاروں تفاسیر موجود ہیں، فقہ کے ہر پہلو ہر مسئلے پر علمائے کرام نے کتب لکھی ہیں، کیا ہم میں سے کسی نے کسی جید عالم کی کوئی ایسی کتاب دیکھی، سنی یا پڑھی ہے جس میں گالیاں دینے کا جواز دین سے تراشا گیا ہو؟ اور کتاب کو بھی چھوڑیں ہمار ے سامنے قران موجود ہے، رسول اللہ ﷺ کا معجزہ، اس قران میں کہیں کوئی حوالہ دکھا دیں، قران میں تو شائستگی، حلیمی اور بردباری کا درس دیا گیا ہے ،حتی کہ جب عرب بدو نبی کریم ﷺ کے حجرے کے باہر آکر آپ ﷺ کو بلند آواز میں پکارتے تھے تو حکم آیا کہ اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے اونچی مت کیا کرو (مفہوم)، بس۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ ہندہ نے چبایا، ابو سفیان کی بیوی نے، اس سے زیادہ قبیح حرکت اور کیا ہو سکتی تھی، فتح مکہ کے موقع پر ہندہ بھی آپ ﷺ کے سامنے پیش ہوئی تو دو جہانوں کے سردار ﷺ نے اسے بھی معاف کر دیا، اس موقع پر جو مکالمہ اُس سے ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ ہمارا دین تو ہمیں یہ سکھاتا ہے، ہمارے نبی ﷺ کی تو یہ تعلیمات ہیں ،نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو اپنی دین کی تشریح ہم پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور گالیو ں کو دین سے جوڑنا چاہتے ہیں۔
چودہ سو برس میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ چند ہزار افراد کروڑوں لوگوں پر قابض ہو جائیں، ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ بائیس کروڑ لوگ کسی مٹھی بھر گروہ، کسی مسلح جتھے یا کسی فسادی ٹولے کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنائے جا سکتے۔ چار صوبوں میں بسے ہوئے دو سو ملین کی نمائندگی چند ہزار لوگ نہیں کرتے، ہاں سو دو سو ڈنڈا بردار ایک سڑک ضرور بند کروا سکتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس سڑک کو مجبوراً استعمال نہ کرنے والے یا مزاحمت نہ کرنے والے ہزاروں افراد ’’بائی ڈیفالٹ‘‘ ڈنڈا برداروں کے موقف کے حامی گنے جائیں! پاکستانی ریاست کی رِٹ کمزور ضرور ہوئی ہے مگر اسے بحال بھی کروایا جا سکتا ہے، نیت ہونی چاہئے، کروڑوں عوام چند ہزار کے ہاتھو ں ہرغمال نہیں بن سکتے۔

تازہ ترین