• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ بینک کی حالیہ ششماہی پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں پاکستانی معیشت کے بارے میں ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر لانگو پاچاماتھو کے بقول سیاسی عدم استحکام کے باوجود پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جو 2017-18ء میں 5.5فیصد اور 2018-19ء میں 5.8فیصد تک پہنچ سکتی ہے لیکن معاشی دبائو کی وجہ سے پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 4فیصد رہا ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت بہتر بنانے کیلئے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے، پرائیویٹ سروس سیکٹر جس میں ٹرانسپورٹ، بینکنگ، انشورنس اور ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے شامل ہیں کی 6 فیصد تک گروتھ پہنچ سکتی ہے جبکہ صنعتی شعبے میں 7 فیصد اور زرعی شعبے میں 2.3فیصد گروتھ متوقع ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور درآمدی اشیاء پر 5سے 30فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے سے مہنگائی میں اضافہ متوقع ہے جس کے باعث 2017-18ء میں افراط زر کی شرح 6 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کم ذخائر اور اضافی قرضوں کے باوجود بیرونی دھچکے برداشت کرسکتا ہے۔ امریکی ماہر اقتصادیات ٹیلر کووین نے امریکی نیوز ایجنسی بلومبرگ میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے ایکسپورٹس میں کمی کی وجہ ٹیکسٹائل سیکٹر پر زیادہ انحصار بتایا ہے لیکن 2016-17ء کے دوران خلیجی ممالک سے ترسیلات زر میں 62 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال مارچ میں ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق 79 ترقی پذیر ممالک میں پاکستانی معیشت کی کارکردگی بھارت سے بہتر بتائی گئی ہے جس میں بھارت 60ویں جبکہ پاکستان 92ویں نمبر پر آتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ اہم بھارتی اخبارات نے بھی شائع کی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں میں پہلے نمبر پر لتھوانیا، دوسرے نمبر پر آذربائیجان، تیسرے نمبر پر ہنگری ہیں۔ اس فہرست میں روس 13 ویں، چین 15 ویں، نیپال 27 ویں، برازیل 30 ویں، بنگلہ دیش 36 اور پاکستان 52 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کےمطابق کرپشن کو پاکستان میں کاروبار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے جبکہ جرائم، چوری، ٹیکس کی شرح، سرمائے تک رسائی، حکومتی عدم استحکام کو بھی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں قرار دیا گیا ہے البتہ جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان اب بھی سب سے پیچھے ہے جبکہ بھارت درجہ بندی میں 39 ویں نمبر اور خطے میں سب سے آگے ہےجس کے بعد سری لنکا 71 ویں، بھوٹان 97 ویں، نیپال 98 ویں اور بنگلہ دیش 106 ویں نمبر پر ہیں۔
میرے خیال میں پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ 55 ارب ڈالر کی امپورٹ جبکہ 20 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی وجہ سے 35 ارب ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ ہے جس کی وجہ سے بیرونی ذخائر اور روپے کی قدر پر نہایت دبائو ہے۔ ہماری مصنوعات کی پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بالخصوص ٹیکسٹائل مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلاتی نہیں رہی ہیں جس کا اندازہ اس کی گرتی ہوئی ایکسپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی مقابلاتی سکت بڑھائیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے یہ امور وزیراعظم کے معاون برائے اقتصادی امور مفتاح اسماعیل اور مشیر برائے ریونیو ہارون اختر خان کو بتائے ، حکومت بجلی کے صنعتی نرخوں میں کمی کرنے کیلئے تیار ہے اور جلد ہی اس کا اعلان متوقع ہے۔ میں ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے روپے کی قدر میں کمی کرنے کے خلاف ہوں کیونکہ اس سے ہمارے قرضوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوجائے گا۔ روپے کی قدر کم ہونے سے پیٹرولیم اور دیگر مصنوعات کی امپورٹ مہنگی ہوجائے گی جس سے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آسکتا ہے لہٰذا روپے کی ڈی ویلیوایشن کرنے کے بجائے میرے نزدیک حکومت کو ایکسپورٹرز کو مراعات دینا چاہئے تاکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ہماری مصنوعات مقابلاتی بن سکیں۔ اس کے علاوہ ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈ اور وزیراعظم کے ٹیکسٹائل پیکیج پر عملدرآمد سے ہماری ایکسپورٹس میں اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ ملکی امپورٹ میں بے انتہا اضافے کو روکنے کیلئے حکومت نے 5 سے 30 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کی ہے۔ میں لگژری گڈز کی امپورٹ پر اضافی ڈیوٹی کے حق میں ہوں لیکن خام مال، کیمیکلز اور دیگر ایسی اشیاء جو فنش گڈز بنانے کیلئے امپورٹ کی جاتی ہیں، پر اضافی ڈیوٹی لگانے کے خلاف ہوں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کو اس وقت بیرونی زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔ ایکسپورٹ کی کمی اور امپورٹ میں اضافے سے ناقابل برداشت تجارتی خسارے کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ قرضوں کی ادائیگی اور تجارتی خسارے کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے حال ہی میں ڈھائی ارب ڈالر کے 5اور 10 سالہ یورو اور سکوک کا اجرا کیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے گورنر ہائوس کراچی میں ایک ملاقات میں، میں نے انہیں بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے کراچی میں بزنس مینوں کی ملاقات جس میں بزنس مینوں نے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے اور انہیں وطن واپس لانے کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے حکومت کو سفارشات بھیجی تھیں لیکن گزشتہ کئی ماہ سے غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث نئی ایمنسٹی اسکیم کی سفارشات پر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ پاناما کیس میں بیرون ملک اثاثے رکھنے کی قانونی حیثیت کی آگاہی کے بعد پاکستان کی بزنس کمیونٹی جنہوں نے پاکستان بالخصوص کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال،بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے اپنی سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کی تھی، اب پاکستان میں بہتر امن و امان کی صورتحال کے باعث اپنا سرمایہ وطن واپس لانا چاہتی ہے۔ توقع ہے کہ نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت تقریباً 20 ارب ڈالر پاکستان لائے جاسکتے ہیں جبکہ 300 ملین ڈالر کے اضافی ریونیو بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں جس سے ملکی قرضوں میں اضافہ کئے بغیر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ ملے گی لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ مقامی طور پر بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر پر بھی ایف بی آر منی لانڈرنگ کے زمرے میں تفتیش کررہی ہے جو بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم کی حوصلہ شکنی کرے گی۔
پاکستان میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے، اسٹاک ایکسچینج 53,000 انڈیکس سے گرکر 40,000 کی نچلی سطح پر آگیا ہے جس سے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ فیض آباد کے 21 دن کے دھرنے نے پاکستان کا دنیا میں منفی امیج پیش کیا ہے۔ مذاکرات کے بجائے حکومتی کریک ڈائون اور طاقت کے استعمال سے دھرنا ملک کے باقی شہروں میں بھی پھیل گیا جس نے کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں صنعتی اور معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کردیا، ملکی گرتی ہوئی ایکسپورٹ مزید متاثر ہوئی۔ پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز، فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع بند کرکے حالات کو مزید گھمبیر بنادیا۔ پورے ملک میں خوف اور بے یقینی کی فضا کی وجہ سے بے شمار اہم پروگرام کینسل ہوئے اور عوام ہمیشہ کی طرح مسئلے کے حل کیلئے پاک آرمی اور رینجرز کی طرف امید سے دیکھ رہے تھے۔ میں اس موقع پر پاک افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور افواج پاکستان کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے ملکی مفاد میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدہ کراکے ملک کو خون خرابے سے محفوظ رکھا جس پر قوم ان کی شکر گزار ہے۔ سپریم کورٹ نے اس تناظر میں واضح بیان دیا ہے کہ آرمی بھی حکومت کا ایک حصہ ہے اور ہمیں اس کے اس مثبت کردار کو سراہنا چاہئے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آج کل چند سو لوگ ملک میں ڈیم اور دیگر ترقیاتی کاموں کی حمایت کرنے کے بجائے روڈ، اسکول، ایئرپورٹ، میٹرو، اسپتال اور ریل روک کر لیڈرز بن جاتے ہیں جس کیلئے وہ مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ماضی میں بھی لوگوں کے جذبات ابھارکر مذہب کو سیاست میں استعمال کیا گیا لیکن یہ رویہ ملک کے مفاد میں نہیں اور ہمیں اس رجحان کو روکنا ہوگا نہیں تو یہ رجحان مستقبل میں پاکستان کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین