• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی کل کی بات ہے ہم دسمبر2016ء کی بات کررہے تھے اور ایسے لگتا ہے کہ چند لمحوں میں یا بڑی تیزی سے دسمبر2017ء بھی آگیا ہے۔ وقت کی تیز رفتار ی دیکھئے سال پہ سال گزررہے ہیں، دنیا میں ترقی، خوشحالی اور امن کے حوالے سے ہر ملک اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد کررہا ہے اور اس کے ثمرات ا ن ممالک کے عوام کو بھی مل رہے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں 365 دنوں میں 350سے زائد دن ملک میں افراتفری، مایوسی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی میں گزر جاتے ہیں،جس سے عوام کے بنیادی اقتصادی ایشوز عملاً پارلیمنٹ سمیت کسی بھی جگہ ریڈار پر نظر نہیں آتے۔ ابھی پچھلے دنوں ملائیشیا اور ازبکستان کے دورے پر جانے کا اتفاق ہوا، وہاں مجھے کوئی شخص ایسا نہیں ملا جو اپنے ملک سے مایوس ہو یا ملک کے خلاف شوقیہ انداز میں کوئی بات کررہا ہو، وہاں حکومتی پالیسیوں پر ضرور تنقید کی جاتی ہے، مگر ملک پر نہیں، ہمارے ہاں جمہوریت اور آمریت پر ہر دور میں الزام تراشی ایک روایت بنی رہتی ہے اور کرپشن سمیت کسی بھی لعنت یا بیماری کو برا سمجھنے کی بجائے اس کی وکالت کی جاتی ہے۔ اب پچھلے چند ماہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ سب ملکی اور عوامی مفاد میں ہے، ہرگز ایسا نہیں ہے، مگر کیا کریں، ایک تو ہمارے ہاں عوام کی اکثریت تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سب ایک ہی طرح سوچتے ہیں جس کا فائدہ ملکی نظام چلانے والے اٹھاتے ہیں۔ یہاں معاملات زندگی ذاتی مفادات کی روشنی میں چلائے جاتے ہیں۔
اب 2018ء کا آغاز ہونے والا ہے، اس حوالے سے دنیا بھر میں نئے سال کی معاشی ترقی کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے، جبکہ ہمارے ہاںابھی تک کوئی ایسے اشارے نہیں ملے کہ جس سے یہ یقین ہوسکے کہ اسلام آباد اور صوبوں کی حکومتیں سب پاکستان کی ترقی کے ایجنڈے کے بارے میں کچھ بھی سوچ رہی ہیں۔ یہ امر ہر لحاظ سے افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ موجودہ ملکی حالات کے پس منظر میں ایسے لگ رہا ہے کہ 2018ء کا سال سیاسی طور پر زیادہ استحکام کا سال نہ ہو۔ اس لئے کہ اداروں کی لڑائی یا غلط فہمیوں میں کمی کے امکانات نظر نہیں آرہے، معاشی میدان میں پریشان کن حد تک تجارتی خسارہ کا بڑھنا اور اس سے حسابات جاریہ کے خسارہ میں اضافہ یہ واضح کررہا ہے کہ 2018ء کی پہلی ششماہی میں مالی اور تجارتی میدان میں معیشت خاصے دبائو میں رہے گی، البتہ انرجی کے شعبہ میں پیداوار کے لحاظ سے بہتری کے باوجود اس کی قیمت خرید کے حوالے سے نہ تو صنعتی شعبہ کچھ مطمئن ہے اور نہ ہی عوام۔ 2018ء میں چونکہ نئے انتخابات متوقع ہیں اس لئے خدشہ ہے کہ اس سے کئی بڑے منصوبوں پر عملدرآمد میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ معیشت چلانے کے لئے نئے یورو اور سکوک بانڈز کے اجراء سے چند ماہ تو اچھے گزر جائیں گے، مگر عملی اور مقامی طور پر معاشی سرگرمیوں کے آغاز کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ملک کو 2018ء میں اگر معاشی ماہرین کی کوئی ایسی قابل ٹیم مل جاتی ہے جو عوام کو بنیادی ضروریات کے مطابق اقتصادی پالیسیاں بنائے تو شاید آنے والے سال خیریت سے گزر جائیں، ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ اس وقت ہماری معیشت کئی خطرات سے دوچار ہے جس سے ملکی سلامتی کے لئے کئی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں، جس کے لئے سیاسی قیادت کو تمام اداروں کے ساتھ اعتماد کی بحالی پر کام کرنا ہوگا۔ اس سے ہی ملک میں خوشحالی کا سفر شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس کیلئے سیاسی قائدین کو ضد اور انا چھوڑ کر قومی مفادات اور عوامی مفادات کا خیال کرنا ہوگا۔ اگر سیاسی قائدین کا رویہ نہ بدلا تو عوام کا جمہوریت ہی سے دل بھر جائے جو کہ قطعی طور پر نہیں ہونا چاہئے۔ اس ملک کی بقا اور سلامتی جمہوریت ہی کے راستے پر چلنے میں ہے لیکن اس کے لئے سیاسی قائدین اور پارلیمنٹ کو ذمہ داری کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین