• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک اور منتخب حکومت اپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے۔ پی پی کے بعد ن لیگ کو بھی یہ موقع مل گیا، اس طرح ملک کی سیاسی و حکومتی تاریخ کا یہ مستقل بن جانے والا حوالہ بالآخر ختم ہونے کو ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سول حکومت کو اقتدار آئین میں دی گئی مدت کے مطابق پورا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
بلاشبہ ہمارے بار بار معطل ہونے والے جمہوری سیاسی عمل میں یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ایک اور انہونی اس طرح ہونی بن گئی کہ ممکن ہوگیا کہ مملکت میں احتساب حکمرانوں کی سطح سے ہونے لگا۔ ایک روایتی حکمراں جماعت کو عدالتی کارروائی کے نتیجے میں موجود وزیر اعظم کے اقتدار سے محرومی کا جھٹکا لگا، لیکن پارلیمنٹ برقرار رہی اور حکومت اس پارلیمنٹ میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد پی پی کی ہی رہی۔ یہ تب ہوگیا جب پیپلز پارٹی کی چوتھی وفاقی حکومت کی گورننس انتہائی مایوس کن رہی تھی۔ کرپشن اور بدنظمی ہی اس کا امتیاز رہا۔ جمہوری عمل میں اک اور بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ اپنی حکومتی کارکردگی کے پس منظر میں الیکشن2013ءمیں اپنی تاریخی پاور بیس پنجاب سے پی پی کا بوری بسترا گول ہوگیا لیکن پاپولر ن لیگ دو وفاقی اور پانچ مرتبہ اقتدار کا بڑا سیاسی امتیاز لئے بھی کوئی صوبے میں ’’مرزا یار‘‘ کا درجہ حاصل نہ کرپائی۔ پنجاب اپوزیشن کی سیاست کے حوالے سے کوئی سونا نہ ہوا بلکہ کتنے ہی امتیاز لئے، سب سے بڑھ کر اسٹیٹس کو ٹوٹنے کی امید کے ساتھ، خان اعظم عمران خان کی تازہ ترین پی ٹی آئی ’’تبدیلی ‘‘ کے نعرے سے ن لیگ اور ہاری پی پی کے مقابل اب سب سے سرگرم پارلیمانی قوت بننے میں کامیاب ہوگئی۔ سب سے سرگرم اس طرح کے، پی پی نے پنجاب پارٹی کو بری طرح زخمی کردینے والی شکست کے باوجود، خاندانی غلبے کے حوالے سے پارٹی پر نئی مسلط قیادت اور پی پی دور کے اصل اور بڑے حاکم ، جناب آصف زرداری نے اپنی اقتصادی باری مکمل کرنے کے بعد ایوان صدر سے رخصت ہونے پر تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے جناب نواز شریف کو اپنی جانب سے تو یہ کہہ کر اپوزیشن کے تفکر سے آزاد کرنے کی کوشش کی کہ’’اب آپ حکومت کریں ہم چار سال بعد سیاست کریں گے‘‘، یعنی فقط انتخابات کے سال میںایسا ہی ہوا، پارٹی کے نئے قائد نے دھڑلے سے اپنے مزاج و مرضی کی وفاق میں پانچ سالہ حکومت کے بعد، پنجاب میں اپنی کمر توڑ انتخابی شکست سے بالا، سندھ میں پھر اپنے اقتدار پر ہی اکتفا کیا، جو کرپشن میں لتھڑی اور بدنظمی اور آئین و قانون شکنی کے نئے ریکارڈ قائم کرتی ہوئی، کیا شہر اور کیا دیہات، سندھی بھائیوں کیلئے بڑا سوال بن گئی کہ کیا سندھ کو فقط پی پی کی سیاست کا روایتی کارڈ ہی بنانا ہے؟ یا اس صوبے نے کچھ اور بھی بننا ہے؟ صوبے کے جاری اقتدار کی مدت میں، بانی ایم کیو ایم کی فسطائی سیاست کے لندنی ماڈل کا دھڑن تختہ ہونے سے جب ا یم کیو ایم کو اپنی بقاء کی پڑگئی تو سندھ میں پی پی کی جیسی بھی حکومت و سیاست چل رہی تھی، اسے تقویت ہی ملی۔
ادھر وفاق میں قدرت کا سونامی آگیا، پاناما لیکس نے پوری قوم اور آئین و قانون کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کردیا کہ، ویسے بھی عمران خان، جنہوں نے واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ن لیگ کی قیادت کو مرزا یار نہ بننے دیا اور مشکوک و متنازع انتخابات کا پیچھا کرکے اصلی اپوزیشن جیسی توانائی حاصل کی۔ اوپر سے پنجاب حکومت گڈگورننس کے حوالے سے اپنی پہلی سی اپوزیشن برقرار نہ رکھ سکی۔ ارباہا روپے کے سستی روٹی، لیپ ٹاپ کی فری تقسیم اور تعلیم و سہولت اور کمیونٹی انفراسٹرکچر سے یکسر بے پروائی، پھراورنج ٹرین اور میٹرو بس جیسے سینکڑوں ارب کے ترقیاتی منصوبے، جن کی عوام کی طرف سے کبھی خواہش ہوئی مطالبہ نہ ضرورت، انتہا کے مشکوک قرار پائے اور متنازع ہوگئے۔ پھر فقط اپنے غیر حاضر سیاسی مخالف شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے دبائو میں، ماڈل ٹائون کی گلیوں میں لگے ناکے ہٹانے کے لئے پولیس، گلو آپریشن کے کارنامے نے پرامن سیاسی مظاہرین پر بے مثال تشدد کی ایسی مثال قائم کی کہ گڈ گورننس تو زمین سے لگ ہی گئی حکومت کے لالے پڑگئے، تاہم اسٹیٹس کو کے روایتی لیکن نتیجہ خیز حربے کام آئے اور یہ اب تک برقرار ہے۔ لاہور کی جدت اور عوامی فلاح کے حوالے سے جو غیر معمولی انفراسٹرکچر تبدیلیاں ہوئیں وہ بھی متنازع، خود شہر لاہور میں اس پر مسلسل تنقید ہوتی رہی۔
پاناما کے حوالے سے جناب میاں نواز شریف کی پھر عدالتی کارروائی کے نتیجے میں اقتدارسے علیحدگی کے بعد ن لیگ کی برقرار حکومت نے پاکستان میں آئینی عمل کو مستحکم بنانے اور قانون کی حکمرانی کا آغاز کردیا۔ فوج کی کمان کی طرف سے علی اعلان، یہ نئی سوچ قوم پر آشکار ہوگئی کہ فوج آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوری نظام کو ہی پاکستان کے استحکام کی ضمانت مانتی ہے۔
انقلابی نتائج دینے والے جاری سیاسی و حکومتی عشرے (2008-18)میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو ا عتبار اور مقام حاصل کیا اور میڈیا جس طرح گورننس کی مانیٹرنگ کے نئے کردار کے ساتھ سامنے آیا۔ وہ اپنی جگہ بےپناہ حوصلہ افزاء ہے اور جاری قومی سیاسی، اقتصادی بحران میں بھی’’تابناک پاکستان‘‘ کے اشارے مل رہے ہیں، تاہم، جمہوری و سیاسی عمل کی تیزی اور نتیجہ خیزی کے باوجود ایک بڑی تشنگی اور حددرجہ اہم قومی ضرورت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قوم کی بے توجہی ہے، جس کی روایتی لیکن ناقابل تلافی خامیاں دور کرنے پر کسی بھی جانب سے کوئی توجہ دی گئی نہ دی جارہی جبکہ وقت بہت کم ہے۔
انتخابی مہم تقریباً شروع ہے۔ کیا جلسے اور کیا انتخابی گٹھ جوڑ قومی سیاست کی تمام سرگرمیاں الیکشن 18ءکے حوالے سے ہورہی ہیں، اگر آئندہ انتخابات غیر جانبدار ،آزاد اور عوام الناس کے لئے روایت کے برعکس نہ ہوئے تو جمہوری عمل کے متذکرہ تمام حصولات پر پانی پھر جائے گا۔ الیکشن 18ءکا بدستور مشکوک اور متناز ع ہونے کے طور پر امتیاز حصولات سے بڑا ریورس ہوگا، جیسے اتنا کچھ ہونے، حتیٰ کہ نیب کے سرگرم اور کافی حد تک آئینی کردار کے باوجود ایسی کالی قانون سازی، بھی بڑا ریورس ہے کہ یہ قانون بن گیا ہے کہ اب انتخابی امیدواروں کو اپنے انتخابی گوشوارے جمع کراتے ہوئے اثاثے اور انکم ٹیکس ڈکلیئر نہیں کرنا پڑا۔ یہ جاری احتسابی عمل پر کاری ضرب نہیں، کہاں ہیں عمران خان اور کڑے احتساب کے ہمنوا جناب سراج الحق اور شیخ رشید یا پھر یہ اطلاعات غلط ہیں کہ ایسا ہوگیا، جب امیدواروں کی موجودہ حالت کی اور مزید تفصیل گوشواروں کے ذریعے ریکارڈ پر لانا ضروری ہوگیا تھا۔ اس حوالے کا پہلا قانون تبدیل کرکے احتسابی عمل کو ریورس لگانے میں اسٹیٹس کی طاقتوں نے کامیابی حاصل نہیں کی؟ جس سے بہت کچھ ہونے والا سوال بن گیا ہے؟ کہ اس کا کیا فائدہ؟۔

تازہ ترین