• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو دہائیوں سے مختلف ملکوں کا سفر کررہا ہوں، امریکہ میں اپنوں اور غیروں کی محبت، دل کشا میزبانی کے باوجود وطن عزیز میں پیش آنیوالے دل خراش واقعات کی وجہ سے امریکہ سے واپسی پر دل بے چین اور اداس ہے،قارئین کرام اکثر بااثر اور طاقتور میرے کالموں کو تنقیدی اورناقابل قبول قرار دیتے ہیں، حالانکہ میرا مقصد اصلاح امور کی نشاندہی کے ساتھ پندونصاح ہوتا ہے۔ امریکہ میں میرے ہم وطن بڑی تعداد (لاکھوں) میں سکونت پذیر ہیں، وہ دہائیوں سے انتھک محنت اور بےمثال جہد مسلسل میں مصروف ہیں، خوش آئند ہے کہ ماتھے پر کوئی شکن ہے نہ لبوں پر کوئی شکوہ، جس سے ملو چہرے پر طمانیت سجائے الحمدللہ کہتا نظر آتا ہے، قانون کی پابندی کرتا ہے، ٹیکس ادا کرتا ہے، بلز کی بروقت ادائیگی کے ساتھ ایمانداری اور وقت کی پابندی کو اپنا خاصہ بنا لیتا ہے، اس ملک نے ہر پردیسی کو ایسا گود لیا کہ اس کی گرمی زندگی بھر جدائی کی اجازت نہیں دیتی۔ کوئی ڈھابے پر کھڑا ڈالر گن رہا ہے تو کوئی نان لگا رہا ہے، کوئی ٹیکسی چلاتا ہے تو کوئی سبزی کی دکان، کوئی پلمبر، مستری، مکینک یا ٹیکنیشن کا کام کرتا ہے تو کوئی سڑک کنارے اسٹال لگا کر کپڑا بیچ رہا ہے، کوئی صحافی، وکیل، ڈاکٹر ہے یا انجنیئر ہے تو کوئی نجی و سرکاری نوکری کر رہا ہے، شبانہ روز محنت کے باوجود چہرے روشن، دماغ پرمغز، تن مضبوط اور ضمیر مطمئن ہے، اربوں ڈالر زرمبادلہ اپنے پیارے وطن کو بھیجنے والے اپنے دل کا کیا کریں جو وطن عزیز کی محبت اور70 برسوں سے جاری سرکس اور پتلی تماشوں سےغم زدہ اور بےچین ہے،ان سب کا سوال ایک ہی ہےکہ وطن عزیز کے حالات کب ٹھیک ہوں گے، کب امن قائم ہوگا کب کرپشن کا خاتمہ، رول آف لاء اور حقیقی جمہوریت کا خواب پورا ہوگا، اپنا وطن تو اپنا وطن ہوتا ہے ان کا آبائی گھر تو یہی ہے یہاں کچھ بھی ہو یہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اک عمر گزارنے کے باوجود ان کےدل کے نہاں خانوں میں پاکستان کسی حسین محبوب کی طرح جاگزیں ہے جو ’’جمہوریت پسندوں اور طاقتوروںٔ‘‘ کے ہر طرح کے مظالم سہہ رہا ہے، یہاں امریکہ میں بھلے کچھ بھی ہورہا ہو یہ اپنے گھر کے حالات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، بالخصوص ہم جیسے خبرنویس اپنے اردگرد پاکر اندر کی بات جاننا گویا ان کی ’’ایکسکلوز‘‘ اطلاع ہوتی ہے، اکثر دوست تو ’’آف دی رکارڈ‘‘ کا صیغہ بھی استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ میں بسنے والوں کی بڑی تعداد سخت محنت و مزدوری سے اعلیٰ عہدوں اور بلند مقام حاصل کرنے کےباوجود غرور اور رعونت سے مبرا ہے تاہم کچھ ایسےضرور ہیں کہ جو اپنے وطن میں بھی ’’چھوٹے‘‘ تھے سو یہاں کی صاف و شفاف کشادہ فضا اور خوبصورت و متمول ماحول نے بھی ان کے دل و دماغ پر ذرا برابر اثر نہیں کیا، اپنے ہم وطنوں سے دھوکہ دہی ان کا وطیرہ اور میزبانوں کی بےتوقیری ان کی جھوٹی شان ہے، تاہم ایسے ’’چھوٹۓ‘‘ آٹے میں نمک کے برابر ہیں جن کا ذکر بھی فضول ہے شاید ان کےدلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔ مختلف شہروں میں غیرت وحمیت اور محبت کےجذبات سے سرشار پاکستانی امریکی سے ملاقاتیں میرا قیمتی اثاثہ ہیں، ان میں نامور ہم وطن وہ ہیں جنہوں نے محض اپنی محنت و اخلاص کےبل بوتے پر امریکی ایوانوں میں بلند مقام بنایا، مقتدر حلقوں تک رسائی حاصل کی وہ یہاں آکر بسنے والے اپنے وطنوں کی خدمت اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں، دیارغیر میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت، وطن سے محبت کی ترغیت دینے کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی خوشنودی کا عملی درس ان کا شعار ہے، بشیر بھٹی صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر اعجاز کا شمار بھی انہی نیک دل انسانوں میں ہوتا ہے جو محض دل کا علاج ہی نہیں ہم وطنوں کے دل جوڑنے کا کام بھی انتہائی مستعدی سے کرنے میں دن رات مصروف ہیں، پاکستان اور امریکہ کے درمیان رابطوں اور تعلقات کی مضبوطی کیلئے ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور پاکستانی امیگرنٹس کو متحد کرنے کیلئے (APPEC)بنایا جارہا ہے جو ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کا پہلا بڑا اور موثر فورم ہوگا۔ ایپیک میں ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا سمیت امریکہ بھر میں مقیم ہر شعبے سے وابستہ اچھی شہرت کے حامل پاکستانی شامل ہوں گے، امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چوہدری اس غیرسیاسی و غیرجانبدار فورم کی بھرپور سپورٹ کا اعلان کرچکے ہیں، اس فورم کےتحت امریکہ بھر میں مقیم پاکستانیوں کی ممبرشپ کا آغاز کیا جارہا ہے اور آئندہ چند ماہ میں ایک ملین پاکستانی تارکین وطن کو رجسٹر کرلیا جائے گا۔ اس مشن کو پورا کرنے کیلئے ڈاکٹر اعجاز اور ان کی ٹیم جانفشانی سےکوشاں ہے۔ ہوسٹن کے طاہر جاوید اور ان کے کئی ساتھی بھی ان تارکین وطن میں سے ہیں جنہوں نے کم عرصے میں اپنی محنت سے اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے، ریاست ٹیکساس میں آنے والے حالیہ تباہ کن طوفان ’’ہاروی‘‘ کے سامنے بلند حوصلوں سےنہ صرف بندھ باندھا بلکہ بےلوث مسلم کمیونٹی نے بےگھر مقامی اور غیرملکی باشندوں کو مساجد میں سیٹل کیا اور اپنی محنت کی کمائی سے بے اماں متاثرین کے لئے زندگی کا سامان مہیا کیا۔ اب کی بار اسٹیٹ کی اہم کاونٹی ہیرس سے انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ظہیر مہر تارکین وطن کے انسانی حقوق کے حوالے سے مشیر ہیں، جو اپنے کاروبار کا وقت بھی اپنے ہم وطنوں کے لئے قربان کردیتے ہیں، علمدار شاہ، محسن ظہیر سمیت کئی دوست ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور تارکین وطن کے مسائل کےحل کے حوالے سے ایک ہیومن رائٹس کمیٹی بنارہے ہیں۔ چار دہائیوں سے امریکہ میں مقیم محمد ریاض رانا، عمران لالپوری اور نعیم ہاشمی جیسے سینکڑوں پاکستانی امریکن کا دل ہروقت پاکستان میں غریبوں کے لئے پریشان رہتا ہے، انہوں نے اپنے مخیر پاکستانی دوستوں کی مدد سے راونڈ میں ایک بڑا رانا الحبیب خیراتی اسپتال قائم کیا ہے جہاں غریب مریضوں کا ہر قسم کا آپریشن اور علاج مفت ہوتا ہے۔ انتہائی محترم انور اقبال، علی عمران، عظیم ایم میاں، رحمان بونیری، فائق صدیقی، ریاض خان، اظفر امام، آفاق خیالی، پروفیسر جہانگیر خٹک، ارشد چوہدری، رضی نقوی سمیت درجنوں قلم کار اور دانشور اپنے شاندار غیرمعمولی کئیریر کی بنیاد پر ہم وطنوں کے لئے علم و آگاہی یقینی بنارہے ہیں۔ قاسم مجید باجوہ جیسی ہمہ جہت شخصیت پاکستان کا فخر ہے، جو اعلیٰ پاکستانی و امریکی حلقوں سمیت تارکین وطن میں کسی جان پہچان کے محتاج نہیں، کشادہ دل ایسے کہ خواجہ غریب نواز کا خانوادہ ہو یا کوئی عام پاکستانی مسافر اپنا من دھن ان کی خدمت کیلئے دیدہ فرش راہ کئے ہوئے ہیں، واویلا مچائے بغیر سینکڑوں تارکین ہم وطنوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں ہردل عزیز خوش گفتار شخصیت ایاز صدیقی کا ذکر نہ کروں تو بے ادبی ہوگی کیونکہ وہ حافظ قرآن، استاد، لکھاری اور وکیل ہی نہیں بلکہ کمیونٹی ورکر اور انسان دوست شخصیت بھی ہیں جن کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ بچےحافظ قرآن اور لکھاری ہیں، سب سے بڑی بیٹی صدف ایاز سترہ اورچھوٹی بیٹی10 سال کی ہے تمام بچوں نے9 سال کی عمر سےکتابیں لکھنا شروع کیں،13 سالہ منجھلی بیٹی تو 6 کتابیں لکھ چکی ہیں اور مزید لکھ رہی ہے،16 سالہ ایک بیٹے زید نےقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل فکشن لکھا ہے، جی ہاں یہی زندگی کا حاصل ہے باقی سب فانی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے بچوں کو انہی کی طرح نیک، لائق، سعادت مند اور قابل فخر بنائے۔ کئی سنئیر امریکی حکام اور پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری سے ملاقاتوں میں پاک امریکہ تعلقات کےحالیہ تعلقات کا سرد دور بھی زیر بحث رہا، سب نے تعلقات بہتر ہونے کے حوالے سے امید افزا باتیں تو کیں لیکن حقائق تھوڑے مختلف ہیں، یعنی سب ٹھیک نہیں، اس پر تفصیلی بات آئندہ کسی کالم میں تاہم رابطہ کاری کی ذمہ داریوں میں منسٹر پریس عابد سعید نے اپنے پیش رو ندیم ہوتیانہ کی روایت کو برقرار رکھا ہے ہوا، نیویارک میں قونصل جنرل علی اعجاز سے ملاقات اور کمیونٹی کی جانب سے اچھی خدمات کی تحسین سنی تاہم باقی تین قونصل جنرلز کی قابل ذکر کارکردگی کا علم نہ ہوسکا۔ حسب سابق موجودہ جمہوری حکومت نے بھی امریکہ سمیت دیگر ملکوں میں موجود پاکستان کا درد رکھنے والے تارکین وطن کے مسائل کو مکمل نظرانداز کر رکھا ہے جو یقیناً باعث شرم وندامت ہے، ایک طرف مشرق وسطی کے دوست ممالک کی جیلوں میں سینکڑوں پاکستانی بلا جرم و خطا قید کاٹنے پر مجبور تو دوسری طرف وطن آنے والوں پر ایئرپورٹس سے ہی بلاتفریق بہیمانہ سلوک کی روایت دہرانے کا سلسلہ جاری ہے، اپنے دیس میں کسی کام سے سرکاری دفاتر میں جوتے گھسیٹنے سمیت، مال و جائیداد کے تحفظ اور چھوٹے بڑے مسائل کاحل نہ ہونا بھی قابل افسوس امر ہے۔ باعث تشویش تو یہ بھی ہےکہ منتخب نمائندے، وزیر یا مشیر، امریکہ اور دیگر ملکوں میں سرکاری دوروں پر جاکر مزے تو لوٹتے ہیں لیکن تارکین وطن سے جاکر ملنا اور ان کے مسائل سننا مناسب نہیں سمجھتے، گویا نہ مسائل سنیں گے نہ حل کرنا پڑیں گے، ارباب اختیار ذہن نشین رکھیں کہ وطن عزیز کو اربوں ڈالر بھجوانے والے یہ پاکستانی ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، عملی جدوجہد اور تحریک چلاتے رہے ہیں، ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا اور قابل احترام مقام دینا آپ کی اولین ذمہ داری ہے، دیس کے باسی تو آپ کو جان اور پہچان چکے اب ان کے سامنے اپنی حب الوطنی کا کچھ تو پردہ رہنے دیں کیونکہ آپ کی جائے پناہ بھی ہمیشہ پردیس ہی ہوتی ہے، کل وہاں جانا پڑا تو کیا منہ دکھائیں گے۔

تازہ ترین