• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12 ربیع الاوّل والے دن جب پورے ملک میں عید میلاد النبیؐ منانے کا آغاز کیا جارہاتھا، وفاقی دارالحکومت میں 31توپوں کی سلامی سے اس عید کی خوشی اور وقار کو اجاگر کیا جارہا تھا، مساجد میں نماز فجر کے بعد درودو سلام پیش کرکے دن کا آغاز کیا جارہاتھا، شمع رسالتؐ کے پروانے معطر سفید لباس پہن کر پیارے حبیبؐ سے عقیدت کا اظہار کررہے تھے ، وعظ کے ذریعے حدیث رسول ؐ کی روشنی کو پھیلانے کیلئے علماء محو گفتگو تھے ، دلوں میں سنت رسولؐ کی اہمیت کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے شائع شدہ اور پیش کردو خصوصی نمبرز اور پروگرام دلوں کو منور کررہے تھے تو ایسے میں کچھ سازشی عناصر،ملک دشمن، اسلام دشمن اور بہروپئے اپنے چہروں کی نحوست کو برقعوں کی اوٹ میں چھپائے اور اپنے تعفن شدہ جسموں کو بارود کی جیکٹوں سے لپیٹے ایک جعلی نمبر پلیٹ والے رکشہ کے ذریعے پشاور کے زرعی انسٹی ٹیوٹ کی طرف بڑھ رہے تھے اور پھر وہ گیٹ پر موجود سکیورٹی اہلکار کو شہید کرتے ہوئے زرعی انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوگئے اور ان سیاہ دل اور جہنمی تین دہشت گردوں نے چھ طالب علموں سمیت 9افراد کو شہید کردیا، اس سے قبل بھی یہ دہشت گرد ہمارے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر ہمارے پھول جیسے بچوں اور جوان امنگ رکھنے والے نوجوانوں کو شہید کرچکے ہیں، جس میں آرمی پبلک اسکول ، باچا خان یونیورسٹی چارسدہ اور ہنگوکا ایک اسکول بھی شامل ہے ، یہ دہشت گردہمارے تعلیمی اداروں ، ہماری مساجد ، ہمارے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنارہے بلکہ یہ بھی دسمبر کا مہینہ ہی تھا کہ پشاور کے اے پی ایس پر حملہ کرکے 130معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا تھا۔
یہ درست ہے کہ اس حملے کے فوراً بعد ہماری پولیس اور فوج نے چند منٹوں میں زرعی انسٹی ٹیوٹ کا محاصرہ کرکے ان دہشت گردوں کو اتنا موقع بھی نہ دیا کہ وہ اپنی بارودی جیکٹیں اڑا کر زیادہ تباہی پھیلانے کا موجب بنتے بلکہ انہیں اپنی گولیوں سے بھون کر جہنم رسید کردیالیکن اس حملے کی خفیہ اطلاعات ہونے کے باوجود ان کے حملے کو پہلے سے ناکام نہ بنانے سے ہماری قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، ظاہرہے کہ صرف صوبہ کے پی کے میں 60ہزار سے زائد اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے ہیں اور پورے صوبہ میں 85ہزار پولیس اہلکار ہیں ایسے میں مناسب سکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں لیکن بہتر حکمت عملی کے ذریعے اور شاہراہوں اور تعلیمی اداروں کے اردگرد گشت کو مزید مؤثر بنا کر ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے ، چھٹی ہونے کے باوجود زرعی انسٹی ٹیوٹ کے ہوسٹل میں لڑکے قیام پذیر تھے اور دشمن نے بزدلانہ لیکن تاک کا حملہ کیا ہے۔ قابل نفرت دہشت گرد جنہیں بھارت کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے ۔بزدلانہ حملوں سے بچنے کیلئے ہمیں مزید اقدامات کی ضرورت ہے ، پاک فوج کے بعد ہماری پولیس نے بھی دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتیں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ، گزشتہ دس سالوں میں کے پی کے میں 29اعلیٰ افسران سمیت 1268پولیس اہلکاروں نے شہادت حاصل کی اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں ایسے میں یہ رپورٹس بھی ملی ہیں کہ بعض شہادت پانے والے اہلکاروں کے لواحقین کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں اور زخمیوں کو بھی بہترین علاج معالجے اور مالی امداد فراہم نہیں کی گئی تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ فوج کی طرح اپنی اس خامی کو بھی بہتر بنائیں۔ اسی طرح ایسے ادارے جہاں پر اس طرح کے دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ ہوتا ہے وہ بھی اپنی سکیورٹی کے نظام کو مؤثر بنائیں یہ درست ہے کہ وسائل کی کمی کے باعث یہ ایک مشکل امر ہے لیکن گیٹ پر محض ایک سکیورٹی گارڈ بٹھا کر ان ظالموں کو نہیں روکاجاسکتا ۔اداروں کی سکیورٹی کے حوالے سے بعد میں اس بیان اور قدم کہ سکیورٹی کو سخت کردیا گیا ہے کو پہلے سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ تربیت یافتہ اداروں کے لوگ ایسی جگہوں کا دورہ کریں جہاں دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ ہے اور وہاں سکیورٹی پر مامور افراد کو بتایا جائے کہ دہشت گردی سے نمٹنے یا انہیں انگیج کرنے کیلئے کیا کیا طریقہ اختیار کئے جاسکتے ہیں، یہ بھی درست ہے کہ زرعی انسٹی ٹیوٹ میں بروقت کارروائی کی وجہ سے نقصان کم ہوا ہے لیکن انہیں حملہ آور ہونے سے پہلے روکنا ہے ، میں فوج کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوںنے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔

تازہ ترین