• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا ایک روزہ دورہ پاکستان بظاہر کسی وسیع البنیاد مفاہمت تک پہنچے بغیر محض باہمی معاملات پر تبادلۂ خیال اور اپنے اپنے تحفظات کے اظہار تک محدود رہنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اگست میں جنوبی ایشیا سے متعلق نئی امریکی پالیسی کے اعلان کے بعد جس میں خطے پر بھارتی بالادستی کا تانا بانا بُنا گیا تھا، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پیدا ہونے والے تنائو اور بد اعتمادی میں قابل ذکر کمی کا اس دورے سے کوئی واضح پیغام نظر نہیں آتا۔ امریکی وزیر دفاع نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات، جس میں سول اور عسکری شخصیات بھی شامل تھیں، کے دوران ’’ڈو مور‘‘ کے گھسے پٹے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے اور خطے میں امن و استحکام کے لئے اپنی کوششیں ’’دوگنا‘‘ کرے۔ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کی بات کی اور پاکستان کو افغان مسئلے کے حل کے لئے مصالحتی عمل میں کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا۔وزیراعظم عباسی نے اس کے جواب میں واضح کیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ ملاقات کی جس میں دو طرفہ تحفظات، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تعاون، افغانستان میں امن کی کوششوں اور خطے کی سیکورٹی جیسے حساس معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔ جبکہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے پاکستان میں حملے ہو رہے ہیں، انہیں ختم کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سر زمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے پر ہمیں تشویش ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنے حصے سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے اور قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں امریکہ سے زمینی حقائق اور معاملات کو سمجھنے کے سوا کسی امداد کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم اور آرمی چیف سے امریکی وزیر دفاع کی ملاقاتوں میں ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے پر اتفاق کیا گیا جو اس دورے کی سب سے اہم بات ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے اگرچہ کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کوئی دھمکی آمیز پیغام نہیں آیا لیکن امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو نے یہ کہہ کر اس حسن ظن کو گہنا دیا کہ ’’پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم نہ کیں تو امریکہ انہیں ختم کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرے گا‘‘ اس طرح کی دھمکیاں ٹرمپ انتظامیہ کے بعض دوسرے ارکان بھی دیتے رہے ہیں امریکی وزیر دفاع کے دورے کے حقیقی نتائج توبعد میں ظاہر ہوں گے لیکن فی الوقت پاکستانی قوم امریکی رویوں سے مطمئن نہیں ۔دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ پاکستان نے لڑی جو افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں پاکستان پر مسلط ہوئی لیکن امریکہ پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کرکے بھارت کی سرپرستی کر رہا ہے یہ وہی بھارت ہے جس نے امریکہ کے خلاف سرد جنگ میں سوویت یونین کا ساتھ دیا، پاکستان اس وقت بھی امریکہ کے ساتھ تھا اور روس نے اسے ایٹمی میزائلوں کے نشانے پر لے رکھا تھا، پاکستان ہر مشکل میں امریکہ کے ساتھ رہا جبکہ امریکہ نے ہر نازک وقت میں پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا حتیٰ کہ ملک دو لخت ہوگیا، اب بھی وقت ہے کہ امریکہ اعتماد بحال کرنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا جائزہ لے اس کے خلاف امتیازی کارروائیوں سے باز ا ٓجائے اور اس کے تحفظات دور کرے، دونوں ممالک حساس معاملات کا مل بیٹھ کر حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور انہیں طے کریں۔ امریکہ کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ افغانستان کا امن پاکستان سے وابستہ ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے تحفظات دور کرنا از بس ضروری ہے۔

تازہ ترین