• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو بجا طور پر پاکستان مارکہ جمہوریت سے نفرت ہے، یہ لوگ اربن مڈل کلاس میں پیدا ہوتے ہیں، ماں باپ انہیں اچھے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، چونکہ قابل ہوتے ہیں سو وظیفہ بھی حاصل کر لیتے ہیں، پسند کے کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ بھی مل جاتا ہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا بھی ان کیلئے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا، ہاورڈ، برکلے، سٹینفورڈ یا امپیریل کالج سے ڈگری لیتے ہیں اور پھر انہیں باہر ہی کوئی ایسی ملازمت مل جاتی ہے جس سے اُن کی دنیا سنور جاتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن میں سے بعض محب وطن اپنی آخرت سنوارنے کے لئے وطن واپس آکر قومی خدمت کا بیڑہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ بیڑہ اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ اٹھایا ہی نہیں جاتا، اُس وقت اِنہیں معلوم ہوتا ہے کہ قوم کی خدمت کا بیڑہ اٹھانے کے لئے الیکشن لڑنا پڑتا ہے اور امریکہ برطانیہ کے برعکس پاکستان میں الیکشن لڑنا خاصا بیہودہ کام ہے کیونکہ اِس عمل میں دو دو ٹکے کے لوگوں کے منہ لگنا پڑتا ہے، گندے اور میلے کچیلے لوگو ں سے ہاتھ ملانا پڑتا ہے، ان ہائجینک علاقوں کا دورہ کرنا پڑتا ہے، بدبودار لوگوں سے جپھی ڈالنی پڑتی ہے، ان کے غلط سلط کاموں کے لئے تھانے کچہری کے چکر لگانے پڑتے ہیں، تعفن زدہ علاقوں میں جا کر جنازوں کو کندھا دینا پڑتا ہے (محض ٹویٹر پر RIP لکھ دینے سے کام نہیں چلتا)، اجڈ قسم کے لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنا پڑتی ہے، ان کی لچر گفتگو سننی پڑتی ہےاور اگر کوئی پڑھا لکھا سوٹڈ بوٹڈ جنٹلمین دل پر پتھر اور منہ پر رومال رکھ کریہ سار ے کام کرنے کا حوصلہ کر لے تو پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اسے ٹکٹ لینے کے لیے کسی بڑی سیاسی جماعت میں شامل ہونا پڑتا ہے ،یہی نہیں بلکہ پارٹی لیڈر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اُس کی خوشامد کرنا پڑتی ہے، لیڈر چاہے بی اے پاس ہی کیوں نہ ہو ہمارے نونہال آکسفورڈ گریجوایٹ کو اُس کے سامنے مودب ہی رہنا پڑتا ہے۔اس سارے معاملے کے بعد اگر ٹکٹ مل جائے تو اُس کی خوش قسمتی اور اگر اُس ٹکٹ پر جیت جائے تو کیا کہنے لیکن جیتنے کے باوجود اگر پارٹی اقتدار میں نہ آئے اور اپوزیشن میں وقت گزارنا پڑے تو پھر مصیبت، اس صورت میں احتجاج، جلسے جلوس اور مظاہروں کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، لاٹھیاں کھانی پڑتی ہیں، اکثر اوقات جیل میں بند ہونا پڑتا ہے۔ اب ان تمام حالات کے بعد جمہوریت پر کوئی تبرّیٰ نہ کرے تو کیا کرے! سو ایسی بناوٹی جمہوریت ہمیں سوٹ نہیں کرتی، ہم ایسے وائٹ کالر لوگ اپنے کمفرٹ زون سے باہر کیوں آئیں جبکہ ہمیں خدا نے ذہانت سے نوازا ہے، اس ملک اور اس کے لوگوں کو چاہئے ہماری قدر کریں، مگر یہ جاہل لوگ چونکہ چند جاگیر داروں اور سرمایہ دار سیاست دانوں کے چنگل میں پھنسے ہیں اس لئے ان لوگوں سے بہتری کی امید عبث ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر اس تعفن زدہ نظام سے چھٹکارہ کیسے پایا جائے؟ اس کا حل ہمارے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے پاس ہے، اپنے حالیہ کالم میں ایک مرتبہ پھر انہوں نے اِس کا خاکہ بیان فرمایا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام نافذ ہو، صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو، لیکن گنوار شخص کا ووٹ اگر ایک گنا جائے تو پڑھے لکھے کا ووٹ دس کے برابر ہو (یہ بات وہ پہلے کر چکے ہیں)، پھر دودھ میں دھلا صدر منتخب ہو کر آئے گا اور اپنی کابینہ میں ٹیکنو کریٹ ہیرے اکٹھے کرے گا جو بے لوث جذبے کے تحت ملک کی کایا کلپ کر دیں گے۔ اس سارے کام میں اول تو زیادہ تردد کی ضرورت نہیں، کوئی مرد آہن چھڑی گھما کر یہ کردے تو کیا کہنے اور اگر ایسا فی الوقت ممکن نہ ہو تو آئین میں ترمیم ’’کروا لی جائے‘‘۔ صدارتی نظام کا حل پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے یہ دلیل بھی رد کر دی ہے کہ پہلے ملک میں صدارتی نظام کا تجربہ ہو کر ناکام ہو چکا ہے کیونکہ ان کے تئیں وہ صدارتی نظام نہیں بلکہ فوجی آمریت تھی مگر ساتھ ہی وہ اپنی اس ’’بے مثال کارکردگی‘‘ کا حوالہ دینا نہیں بھولے جو مشرف کی آمریت کے نیچے انہوں نے ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں دکھائی تھی، گویا ایک ہی سانس میں انہوں نے اُس آمریت کو بھی جواز بخش دیا۔ ایک بیان انہوں نے یہ بھی دیا کہ گزشتہ انتخابات میں 45فیصد جعلی ووٹ ڈالے گئے، پتہ نہیں یہ اعداد و شمار انہوں نے کہاں سے لئے، پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو اس قسم کی بات بغیر حوالے کے زیب نہیں دیتی۔ انہوں نے یہ بھی لکھاکہ صدارتی نظام پچاس سے زائد ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے اور اگلے دس سال تک ہمیں بھی یہی اپنا لینا چاہئے۔
ڈاکٹر صاحب چونکہ سنجیدہ آدمی ہیں اس لئے سنجیدگی سے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ صدارتی نظام کے بارے میں ان کی تحقیق ادھوری ہے، بے شک یہ کئی ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے مگر ان میں سے زیادہ تر ممالک ایسے ہیں جہاں قومی اعتبار سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے، امریکہ کی پچاس ریاستیں ہیں جن میں نیویارک بھی شامل ہے اور بحرالکاہل کے بیچوں بیچ ہوائی بھی، خاکسار کو یہ دونوں ریاستیں دیکھنے کا موقع ملا ہے، دونوں کے کلچر ،بودوباش، رہن سہن، زبان، قومیت میں کوئی فرق نہیں، حالانکہ دونوں کے درمیان صرف وقت کا فرق ہی پانچ گھنٹے ہے، یہی حال امریکہ کی دیگر ریاستوں کا ہے جبکہ بھارت اور پاکستان جیسے ملکوں میں صوبوں نے مل کر وفاق تشکیل دیا ہے، یہاں کئی قومیتیں ہیں، کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، لوگ اپنی عصبیت کے حوالے سے بے حد حساس ہیں، مختلف النوع قسم کے کلچر پورے ملک میں پائے جاتے ہیں، برا ہ راست منتخب ہونے والا صدر لامحالہ ہمیشہ پنجاب سے ہی ہوگا اور یہ بات وفاق کو کمزور کرنے کے لئے کافی ہے، اسی لیے ہمارے جیسے ملکوں میں پارلیمانی نظام اپنایا جاتا ہے جہاں آبادی اور رقبے دونوں بنیادوں پر نمائندگی ممکن ہو۔ اور پھر کیا صدارتی نظام کا مطالبہ کسی صوبے یا جماعت کی طرف سے آیا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر کہیں یہ ان سو دو سو لوگوں کا مسئلہ تو نہیں جو ہمہ وقت اس نظام کی برائیاں تلاش کرکے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے منصوبے پیش کرتے رہتے ہیں، ان دو سو لوگوں نے اپنی نوکریوں کی خاطر بائیس کروڑ لوگوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں! مگر ڈاکٹر صاحب بھلے آدمی ہیں، وہ ملک کی بہتری چاہتے ہیں اس لئے گاہے بگاہے ٹیکنوکریٹ حکومت کی حمایت میں لکھتے رہتے ہیں۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ تمام آمر، بھلے وہ ووٹوں سے منتخب نہ ہو کر آئے ہوں، انہوں نے ٹیکنوکریٹ کابینہ ہی تشکیل دی، ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہر ڈکٹیٹر کی کابینہ میں یہی ٹیکنو کریٹ شامل تھے، انہوں نے آمریت کے دور میں جو تحفے ہمیں دیئے اور ملک توڑنے کے علاوہ باقی ماندہ ملک میں جو آگ لگائی وہ اب تک ہم بجھا نہیں پا رہے۔ آخر میں کچھ بات قائد اعظم کی ڈائری کی بھی ہو جائے جس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ قائد نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کہ پاکستان کے لئے صدارتی نظام ہی درست رہے گا۔ اول تو قائد اعظم نے جو کہنا تھا اپنی متعدد تقاریر میں کہہ دیا اور واشگاف الفاظ میں پارلیمانی جمہوریت کا نام لے کر کہا، دوسری بات کہ قائد کے بعد ان کے تمام رفقا اور پنجاب سے لے کر بلوچستان تک سیاسی جماعتوں نے 1973کے آئین کی متفقہ منظوری دی اور اسے وفاقی پارلیمانی قرار دیا، اس کے بعد قائد کی کسی ڈائری کی تشریح باقی نہیں رہتی۔ تیسری اور آخری بات، قائد اعظم آئین اور جمہوریت کے قائل تھے، تمام عمر اس کے لئے جدوجہد کی، اُن کی ڈائری کا حوالہ دیتے وقت جمہوریت کے بارے میں قائد کے افکار بھی ڈاکٹر صاحب اگر پڑھ لیتے تو شاید آمریت کے دست و بازو نہ بنتے۔
پاکستان کا المیہ کسی مخصوص نظام یا جمہوریت کی ناکامی نہیں، پاکستان کا المیہ اخلاقی قحط ہے، ہمارا پڑھا لکھا طبقہ چونکہ اس قحط کا شکار ہے سو اُن کی قابلیت اس قحط کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے۔

تازہ ترین