• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی قومی سیاست عملاً دو گروہوں میں تقسیم ہے، قومی سیاسی تقسیم کی یہ اصولی پوزیشن 1958، اکتوبر میں منتخب حکومت پر ایوب خانی شب خون کے بعد وجود پذیر ہو گئی تھی۔ آپ اسے ایک اور طرح بھی بیان کر سکتے ہیں، یہ کہ ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے قوی نصب العین کے علمبردار اور ’’آئین کی زیر دستی، ووٹ کی بے قدری اور جمہوری التوا‘‘ کے نقشہ گر، پہلی قوت کی نمائندگی پاکستانی عوام کی بہت ہی بڑی اور بہت ہی فیصلہ کن اکثریت کرتی ہے، دوسری قوت کی نمائندگی پاکستانی عوام کی قلیل تعداد اور غیر عوامی قوتیں کرتی ہیں، ان غیر عوامی عناصر میں ریاست پاکستان کے ظاہری اور باطنی، ہر قسم کے مقتدر اور غیر مقتدر اسباب شامل ہیں، پاکستان کی قومی سیاست کے مطلوبہ ہدف کو مستقلاً قائم رکھنے کی اس تگ و تاز ہی میں مملکت خدا داد دو لخت ہوئی، وقوعہ یہی ہے باقی کہانیاں ہیں چاہے ہر کہانی کے ہر لفظ سے لہو ہی کیوں نہ ٹپک رہا ہو۔
2008میں پاکستان کی منتخب حکومت، ایوب خان کے قریباً 50برس بعد اپنے انتخابی حق حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی، پاکستان ’’ن‘‘ لیگ منتخب مدت حکمرانی میں اب صرف آٹھ ماہ باقی ہیں، ان آٹھ ماہ کے دوران میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی باہمی مشاورت سے متوقع نگران حکومتوں کی تشکیل کے معاملات طے پائیں گے، پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت 2008ء سے جمہوری تسلسل کا یہ نواں برس مکمل ہونے جا رہا ہے، ہمیں اس حوالے سے سو فیصد ایک منفرد ترین منظر دکھائی دے رہا ہے، افسوس اس اہم ترین سیاسی منافع کا ہم تذکرہ ہی نہیں کرتے؟
یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت مکمل کئے جانے سے پہلے گھر بھجوانے کی تمام کوششیں خاک بسر ہوئیں انہیں مٹی چاٹنا پڑی، ان کے سروں پر راکھ پڑی، پیرنیلے ہوئے آنکھوں میں موتیا اترا اسے ظاہری اور باطنی عناصر، سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور دانشوروں کے سینوں پر وہ مونگ دلنے والا موت کا سا لمحہ تھا جب ان کے سامنے آئینی تہذیب و تدوین کے آئینے میں ایک منتخب حکومت کو دوسری منتخب حکومت ووٹ کی بنیاد پر اقتدار منتقل کر رہی تھی، اب تک سو فیصد یہی ’’بیلنس شیٹ‘‘ ’’ن‘‘ لیگ کے منتخب اقتدار کی، ان تمام ظاہری اور باطنی ’’حرکات‘‘ سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈہ، سازشیں، کردار کشی، دھرنے، مقدمات اور بیسیوں نہیں سینکڑوں شرکاریاں شامل ہیں، پھر بھی ’’ن‘‘ لیگ اپنی انتخابی مدت اقتدار کے پانچویں برس میں داخل ہونے جا رہی ہے، بین الاقوامی نقشے اور قومی سیاست کے موجود شب و روز سے اس کی منتخب آئینی مدت اقتدار بھی مکمل ہوتی دکھائی دیتی ہے، ایسا ہونے کی صورت میں ہم قومی سیاست کی جمہوری بیلنس شیٹ کے نقطہ نظر سے ایک بار پھر ان تمام بلاواسطہ اور بالواسطہ قوتوں کے ظاہری اور باطنی چہروں پر کالک مل سکیں گے۔ جو عوام کے ووٹوں سے فراہم کردہ حق حکومت کو اس کی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے گھر بھجوانے اور آئین کے مطابق 2008 کے قومی انتخابات سے پہلے ’’کچھ کر کے‘‘ جمہوری پارلیمانی نظام کے صراط مستقیم، پر قوم کے سفر کی کامیابی کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔
ان نو برسوں میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل ‘‘حاصل ضرب ہے یا ’’آئین کی زیردستی، ووٹ کی بے قدری اور جمہوری التوا‘‘ کی متحرک، ظاہری اور باطنی طاقتوں کی ذلت و رسوائی ہے، کا جمہوری میزان ان طاقتوں کی ناکامی و نامرادی پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ سینئر سیاستدان برادر جاوید ہاشمی کی کتابی تقریب رونمائی میں رضا ربانی اور جاوید ہاشمی صاحب نے جو کیا سو کیا اس تقریب کے تناظر میں البتہ خواجہ سعد رفیق کے خطاب کے ایک مختصر ترین حصے کا حوالہ اور اندراج تاریخی تقاضا ہے، ان کے مطابق ’’بے نظیر بھٹو کے قتل سے سیاست میں خلا آیا، اب مصنوعی سیاستدان بنائے جاتے ہیں۔ پرویز مشرف کو اتنی دیر ہی رکھا جتنا رکھ سکے، اس کا احتساب نہیں کر سکے، سیاست آزادی سے کرنے دی جائے، اب بھی وقت ہے مل کر اداروں کو سنبھال سکتے ہیں، بیرونی سازشیں زوروں پر ہیں، نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوا، اس کو دفن کرنا ہو گا، مصنوعی سیاسی جماعت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی، بہتر ہوتا ایم کیو ایم کے لوگوں کو خود فیصلہ کرنے دیا جاتا، پی ایس پی کا کچھ نہیں بننے والا چاہے جو مرضی کر لیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت نہ ہوتی تو آج کا پاکستان مختلف ہوتا۔ ہم نہیں چاہتے کسی اور کو نا اہل کیا جائے، ہماری بھی غلطیاں ہیں، سیاسی لڑائیاں لے کر عدالت کیوں جاتے ہیں۔ وزیراعظم پر بدترین الزام لگا کر نکالا گیا۔ کیا ہر بار وزیراعظم ہی غلط تھا۔ کیا چیف جسٹس اور چیف آف اسٹاف غلط نہیں ہو سکتے، ایک دھول اڑائی جاتی ہے کہ سب سیاستدان چور ہیں۔ کیوں پرویز مشرف کا احتساب نہیں ہوا؟ کیا کبھی کسی دوسرے ادارے کے سربراہ کو نکالا گیا۔ کیوں افتخار چوہدری کے بیٹے کا احتساب نہیں ہوا؟ 16وزراء اعظم پر بدترین الزامات لگا کر نکالا گیا۔
خواجہ سعد رفیق کا بیانیہ پاکستانی سیاست کے تاریخی ارتقا اور جرأت کا نقارہ ہے، آج سے چند برس پہلے تک ان ظاہری اور باطنی قوتوں کے بارے میں اظہار رائے کا تصور بھی ناممکن تھا، صرف چھ دن قبل سپریم کورٹ کا ایک ریمارک بھی قومی ریکارڈ کا حصہ بن چکا، ریمارک یہ تھا۔ ’’میڈیا نفرت پھیلانے سے باز نہ آیا تو دیکھ لیں گے، خفیہ ایجنسیاں کبھی ملک کا بھی سوچیں، سازش کے تحت جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں‘‘۔ یہ ریمارک پاکستانی عوام کے ذہنی فکر کا پیغام ہے، 2018کے قومی انتخابات سے پہلے کسی بہت ہی بھیانک غیر جمہوری منصوبے کی پھڑپھڑاہٹ اور ریاست کی رٹ سمیت کسی شے کے بارے میں متفکر اور متردود نہ ہوں، سب جمہوری تسلسل کی برقراری پر سارا زور لگا دیں، یہی ریاستی رٹ ہے اور یہی وہ ریاستی شکنجہ ہے جس میں ہر قسم کے غیر جمہوری طبقوں اور افراد کو کسا جا سکے گا۔

تازہ ترین