• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب2013میں چین کے صدر نے ون بیلٹ ون روڈ کا نعرہ لگایا تو ایسا لگا کہ اگلے پانچ سات سال میں پاکستان معاشی سطح پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنے والا ہے۔ ہم نے چین پاکستان اکنامک کاریڈور کو یہی سڑک سمجھا جس کی منزل گوادر کی بندرگاہ ہونی ہے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ گوادر چند برسوں میں دبئی بننے والا ہے۔ ہمیں کاشغر سے گوادر کے درمیان ایک بہت بڑی موٹر وے بنتی ہوئی محسوس ہوئی اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کا ٹریک بنتا ہوا نظر آیا۔ اس اقتصادی راہداری پر جگہ جگہ نئے انڈسٹریل شہر آباد ہوتے ہوئے دکھائی دیئے اور ہم تصور کی آنکھ سے اس موٹر وے پر روزانہ ہزاروں بڑے بڑے ٹرک آتے جاتے ہوئے دیکھنے لگے۔
ہر طرف یہی شور اٹھا کہ سی پیک، ایک بیلٹ ایک سڑک کے منصوبے کا ہی ایک نام ہے۔ جس کے تحت چین کو گوادر سے ملایا جارہا ہے۔ اس کے لئے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ اب چین کےتجارتی مال کی ترسیل کم نرخوں پر ہو گی۔ اس سے پہلےچین کی تجارت جنوبی چائنہ سمندر کے ذریعے ہوتی ہےاس راستے سے تجارتی سامان کو تقریباً دس ہزار میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کے بعد یہ راستہ دو ہزار میل میں سمٹ آئے گا۔
ابھی ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہم غلطی پر تھے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کسی سڑک کا نام نہیں ہے۔ سی پیک کوئی گوادر کی بندرگاہ کا پروجیکٹ نہیں ہے ہاں وہ اس کا حصہ ضرور ہے مگر اصل میں یہ راہداری پروجیکٹ میں پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی ایک صورت ہے جس میں لاہور کی اورنج ٹرین، کراچی سے حیدر آباد موٹر وے جو سکھر تک بنایا جائے گا، لاہور سے کراچی تک موٹر وے بھی سی پیک کا حصہ ہوگا۔ ناران اور کاغان میں بھی جو موٹر وے بن رہا ہے وہ بھی سی پیک کا حصہ ہے۔ یہ تمام چھ رویہ موٹر وے ہوں گی اور تمام صنعتی زون بھی انہی موٹر وے کے ارد گرد بنائے جائیں گے۔
جب کہ گوادر سے کوئٹہ ،ژوب اور ڈیرہ غازی خان تک آنے والی سڑک صرف تیس فٹ چوڑی ہو گی۔ گوادر کی بندرگاہ کا معاملہ سی پیک میں کوئی زیادہ اہمیت کا حامل نہیں یہ بندرگاہ تقریباً دس سال کے بعد مکمل ہوگی۔ پانچ سال گزر چکے ہیں اور ابھی دس سال اور اِس بندرگاہ کو مکمل طور پر ورکنگ حالت تک پہنچنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ یعنی جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ سب ایک سنہرا خواب ہے یعنی ابھی دور دور تک گوادر کے دبئی بننے کا کوئی امکان نہیں۔ صرف اس بات پر غور کیجئے کہ کراچی سے گوادر جانے والی سڑک بھی چھ رویہ نہیں بنائی جارہی۔ کیوں؟ وہاں تک موٹر وے کیوں نہیں بنایا جارہا؟ اس سڑک پر کیوں کوئی صنعتی زون نہیں بنایا جارہا؟ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
یہ جتنی معلومات میں نے درج کی ہیں۔ یہ سب مجھے سی پیک کے لئے کام کرنے والے ایک اہم آفسر نے فراہم کی ہیں۔ کیا یہ سب بھی چنیوٹ سے نکلنے والے سونے کی طرح کوئی چیز ہے۔ مجھے یاد ہے جب حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چنیوٹ کی سرزمین قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہاں پائے جانے والے لوہے کے ذخائر125 سال تک ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہاں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم نے تمام قوم کو مبارک بھی دی تھی۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ یہ سب کچھ عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔ اب تو مجھے سی پیک کامعاملہ بھی اسی طرح کا لگ رہا ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ سی پیک کا معاملہ افواج پاکستان نے اپنے زیرنگرانی شروع کرا رکھا ہے اور گوادر سے ڈیرہ اسماعیل خان تک آنے والی موٹر وے بھی افواج پاکستان نے بنائی ہے۔ سی پیک کی سیکورٹی کے لئے فوج نے ایک علیحدہ فورس بنائی ہے جس کا کام اسی روٹ کی حفاظت اور نگہداری ہوگا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ اس کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو کھل کر بتائے کہ سی پیک کیا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کتنے عرصہ مکمل ورکنگ کنڈیشن میں آئے گی۔ کاشغر سے گوادر جانے والی موٹر وے کب تیار ہو گی؟ صنعتی زون جو بنیں گے ان کا اس بندرگاہ سے کیا تعلق ہوگا؟ مغربی روٹ کی کیا حیثیت ہوگی؟ سی پیک اگر گوادر سے متعلق تھا تو پھر اس کی ساری سرمایہ کاری پنجاب اور سندھ میں کیوں کی جارہی ہے۔ موٹر وے یہاں کیوں بنائے جارہے ہیں۔ لاہور میں چلنے والے اورنج ٹرین کا گوادر کی بندرگاہ سے کیا تعلق ہے۔ حیدر آباد سے سکھر تک بنایا جانے والا موٹر وے سی پیک میں کیوں شامل ہے۔ سارے صنعتی زون کیوں پنجاب اور سندھ میں بنائے جارہے ہیں جبکہ گوادر بلوچستان میں ہے۔ وہ جو چین نے پروجیکٹ لانچ کیا تھا جس کے ایک حصے کا نام ’’سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ تھا جس کےدوسرے حصے کو ”میری ٹائم سلک روڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ جس میں چھ کوریڈورز شامل تھے۔ چائنہ منگولیا رشیا اکنامک کوریڈور۔ نیو یوریشین لینڈ برج۔ چائنا سینٹرل اینڈ ویسٹ ایشیا اکنامک کاریڈور۔ انڈو چائنا، پیننسولا اکنامک کاریڈور۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور۔ بنگلہ دیش چائنا انڈیا، میانمار اکنامک کاریڈور اور ان سب کا تعلق گوادر کی بندرگاہ سے تھا، اس پروجیکٹ کا کیا ہوا؟ ہم تو اسی کو سی پیک سمجھتے تھے ۔ اب سی پیک کوئی اور چیز دکھائی دینے لگا ہے۔ وہ سی پیک کہاں گیا جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کی صنعت و تجارت کو فروغ کے لئے چین نے تیار کیا تھا۔ چین کا صوبہ سنکیانگ جس سے آٹھ ممالک کی سر حدیں ملتی ہے جن میں پاکستان، روس، افغانستان، بھارت، تاجکستان، منگولیا وغیرہ شامل ہیں، وہاں سے گوادر تک جو اقتصادی راہداری بننی تھی وہ کیا ہوئی۔

تازہ ترین