• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی گزرے ہوئے نومبر کو مغرب میں مسلمانوں کیخلاف شدیدنفرت جسے اسلاموفوبیا کےطور پر جانا جاتا ہےکو وہاں کی اشرافیہ کی جانب سے کھل کر اور شرمناک حمایت کیلئے یاد رکھا جانا چاہئے۔ مسلم دشمنی کا یہ رجحان اسقدر عام ہوگیا ہے کہ اب یہ کسی اچھنبے کی بات نہیں لگتی۔ جنوری2011 میں برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کی صدر بیرونس سعیدہ وارثی نے جب اس خطرے کی طرف توجہ دلائی کہ برطانیہ میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کیخلاف امتیازسماجی طور پر قابل قبول بن گیا ہے تو انہیں شدید تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ حال ہی میں وارثی نے برطانیہ میں اسلام دشمنی کے بڑھتے ہوئے رحجان کے بارے میں نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سوچ اب بڑی مخفی مگر معصوم انداز میں ’’تھنک ٹینکس، مبصرین یہاں تک کہ سیاستدانوں کے دلائل میں در آئی ہے‘‘.
مہینےکا اختتام امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سےٹویٹر پر تین مسلمان مخالف ویڈیوز کی اشاعت سے ہوا جو انہوں نے برطانیہ میں قائم ایک مسلم مخالف انتہاپسند گروہ بریٹن فرسٹ کے ایک رہنما کی جانب سے ٹویٹ کرنے کے بعد انہیں ریٹویٹ کردیا۔ ایک ویڈیو میں بظاہر مسلمانوں کا ایک گروہ ایک لڑکے کو چھت سے گرانے کی کوشش کررہا ہے۔ دوسرے ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی خیالی شبیہ کو تباہ کردیا گیا ہے جبکہ تیسری ویڈیو میں ایک شخص کی بارے میں دعوی کیا گیا کہ وہ ایک ’’مسلمان تارک وطن‘‘ ہے جو بیساکھیوں پر ایک ’’ڈچ لڑکے‘‘ کو ما رہا تھا۔ ٹرمپ کی اس نفرت انگیز ترویج پر برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے کے دفتر نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اقدام کو غلط قرار دیا۔ اس کے جواب میں صدر ٹرمپ کا جوابی ردعمل خاصا سخت تھا۔ انہوں نے برطانوی وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ ملک کے اندر ان کے بقول تباہ کن اسلامی دہشت گردی کی طرف توجہ دیں۔ ٹرمپ کے نفرت انگیز ٹویٹس میں ’’ڈچ لڑکے‘‘ والا دعویٰ فوری طور پر غلط ثابت ہوا اور امریکہ میں ڈچ سفارت خانے نے ایک بیان میں صدر ٹرمپ کو چیلنج کرتے ہوئے یاد دلایا کہ حقائق کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ مگر امریکی انتظامیہ نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا بلکہ وائٹ ہاؤس کی ایک ترجمان سارہ سینڈرز نے صدر کی فتنہ انگیزیوں کی توثیق کرتے ہوئے ویڈیو کی صحت کے بارے میں خدشات کو نظر انداز کریا اور یہ تاویل پیش کی کہ صدر نے ایک حقیقی خطرے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ٹرمپ کے ٹویٹس پر برطانوی سرکار کے تحفظات کے جواب میں سینڈرز نے اعلان کیا کہ تھریسامے اور دیگر عالمی رہنماؤں کو معلوم ہے کہ یہ خدشات اور خطرات حقیقی ہیں۔
نومبر کی ابتدا میں لندن میں قائم نفرت کے جرائم کی نگرانی کرنے والی تنظیم ٹیل ماما نے ایک رپورٹ جاری کی جسکی رو سے2017 میں مسلمان مخالف حملوں میں47 فیصد اضافہ ہواہے۔ان حملوں کا شکار ہونے والوں میں نصف سے زیادہ تعداد مسلم خواتین کی تھی اور تقریباً 70 فیصد حملہ آور نسلی اعتبار سے سفید فام مرد تھے۔ مسلم خواتین جو حجاب یا اس طرح کا اسلامی لباس زیب تن کرتی ہیں کو با آسانی نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے اسلامی شعائر اور علامات کے خلاف مسلم مخالف شدت پسندوں کی جنگ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیل ماما کے ڈائریکٹر عثمان عطا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اسلام مخالف فیکٹریاں گردانا جو ممکنہ طور پر مسلمانوں کے خلاف گالم گلوچ اور پرتشدد حملوں میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔ اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے مسلم مخالف نفرت کا اظہار کرنے کی وجہ سے امریکی صدر اس ماحول کو مزید کشیدہ کرسکتے ہیں۔
نومبر کے وسط میں برطانیہ میں نسلی تعلقات پر ریسرچ کرنے والی تھنک ٹینک رننیمیڈ ٹرسٹ نے اسلاموفوبیا پر اپنی نئی رپورٹ میں دعوی کیا کہ 20 سال قبل کے مقابلے میں برطانیہ میں مسلم دشمنی اور منافرت غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔ بیس سال قبل رننیمیڈ ٹرسٹ نے ہی پہلی بار مسلم مخالف نفرت اور شدت پسندی کے بارے میں لکھا اور سیاسی اور پالیسی ساز حلقوں میں اسلاموفوبیا کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس زہر آلود نفرت کے اہم عاملوں میں سے ایک میڈیا ہے۔ دو ہفتے قبل ایک پبلک لیکچر میں لیڈی وارثی نے برطانوی اخبارات کو بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس معاملے پر پارلیمانی تحقیقات کی درخواست کی۔ آپ نے ڈیلی ٹائمز، ڈیلی سن، ڈیلی میل اور ڈیلی ایکسپریس جیسے اہم اخبارات کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو بنیادی طور پر ہدف بنایا جارہا ہے جہاں آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانیہ پیش کیا جاتا ہے جس سے مقامی شراب خانوں سے لیکر پارلیمنٹ تک ہونے والی گفتگو متاثر ہوتی ہے۔
یورپ اور دیگر مغربی ممالک۔ امریکہ سے لیکر آسٹریلیا تک، مسلمانوں کے خلاف نفرت روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے جہاں قانونی امیگریشن سے لیکر غیرقانونی تارکین وطن جیسے مسائل کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جارہا ہے حتیٰ کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے مقامی ثقافتوں کی تطہیر کو بھی مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، اب توبات مسلمانوں کو حیوانوں کے زمرے میں لا کھڑا کرنے تک بڑھ گئی ہے۔
اس سے ایک ہفتہ قبل23 نومبر کو برطانیہ کے پریس ریگولیٹر نے روزنامہ دی سن کیخلاف ایک شکایت کو مسترد کر دیا جسمیں اخبار کے ایک سینئر کالم نگار ٹریور کوانہ نے دعوی کیا کہ برطانیہ میں ایک ’’مسلم مسئلہ‘‘ ہے جسے بہت جلد بڑے پیمانے پر محسوس کیا جائے گا۔ اگرچہ پریس ریگولیٹر نے یہ تسلیم کیا کہ اخباری مضمون کی زبان یہودیوں کے خلاف نازی پروپیگنڈا سے کافی ملتی جلتی ہے مگر انہوں نے ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا کہ اخبار نے ایڈیٹرز کے کسی ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس مسلم کش ماحول پر تبصرہ کرتے ہوئے میرے دوست فرینک جیلی جو کہ ایک انگلیکن پادری اور شہزادی ڈیانا کے سابق روحانی مشیر رہ چکے ہیں، نے مجھے بتایا کہ ان کے مسلم دوست اکثر اپنے آپ کو بڑھتی ہوئی نفرت کا ہدف محسوس کرتے ہیں یہاںتک کہ ’’ان کے بچے کلاس رومزہ میں بھی کافی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔‘‘ ان حالات میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ برطانیہ میں اسکولز کی دیکھ بھال کرنے والے سرکاری ادارے نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ پرائمری اسکولوں کی ان مسلم بچیوں سے پوچھ گچھ کرے گا جو حجاب پہنتی ہیں۔ اس طرح اب مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک نیا محاذ کھولا گیا ہے۔
ضمیمہ
1911 کے آغاز میں جب مسلمان لندن میں ایک مسجد بنانے کی تگ و دو کر رہے تھے تو چرچ ٹائمز (13جنوری1911) نے اس کے بارے میں یوں تبصرہ کیا:’’اگر یہ صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے پیروکاروں کی جانب سے ایک منصوبہ ہوتا تو ہمارے لئے اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ......لیکن ہم ہتک آمیز احساس اور افسوس کے تاثرات سے پر ہیں کیونکہ اس اسکیم کو آگے لے جانے والی کمیٹی میں چرچ جانے والے کچھ ممتاز سیاستدانوں کا نام بھی ہے۔ ہم یہ بتانے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ مسیحی کی حیثیت سے ہمارے لئے مسیح (علیہ السلام) کی بادشاہت کی ترقی برطانوی سلطنت کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

تازہ ترین