• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحۂ ماڈل ٹائون لاہور (17جون2014ء) کے بارے میں جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل یک رکنی انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد جو نئے سوالات اور نئے زاویے سامنے آئے ہیں وہ ایسے بہرحال نہیں کہ انہیں نظرانداز کر دیا جائے۔ اس بات کی ضرورت بڑ ھ گئی ہے کہ سانحات اور المناک واقعات کے حقائق تک عوام کی رسائی یقینی بنانے کے طریقے وضع کئے جائیں۔ مختلف ملکوں میں انکوائری رپورٹیں اور تفتیش وتحقیق کے نتائج سامنے لانے کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور جن باتوں کا کسی فوری مصلحت یا قومی مفاد کے پیش نظر وقتی طور پر کلی یا جزوی طور پر عام کرنا ممکن نہیں ہوتا انہیں بھی ایک مخصوص مدت کے بعد ظاہر کر دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر برطانوی حکومت نے برصغیر جنوبی ایشیا کی آزادی سے پہلے اپنے وائسرائے کی رپورٹوں اور خط و کتابت کو ایک خاص مدت کے بعد ظاہر کر دیا جس پر کئی کتابیں لکھی گئیں۔ امریکی حکومت نے دنیا کے مختلف حصوں میں سی آئی اے کی سرگرمیوں اور وہائٹ ہائوس کی پالیسیوں کے بارے میں ایسی دستاویزات ظاہر کی ہیں جن سے عام امریکیوں اور پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کے محققین کے لئے ایسے واقعات کو سمجھنا ممکن ہوگیا ہے جن کا کوئی سرا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہی حکمت عملی دوسرے ملکوں میں بھی اختیار کی جاتی ہے۔ جبکہ وطن عزیز میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے سقوط ڈھاکہ اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل سمیت واقعات کا ایسا سلسلہ ہے جن کے بارے میں اصل حقائق سے قوم بےخبر ہے اور غیر معتبر ذرائع سے آنے والی یا نامکمل معلومات سے جنم لینے والی تھیوریاں مخمصوں کا موجب بن رہی ہیں۔ منگل کے روز لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینج نے پنجاب حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے جسٹس نجفی کی 9اگست 2014ء کو پیش کردہ رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت کی ویب سائٹ پر آنے والی 132صفحات کی رپورٹ پر پاکستان عوامی تحریک اور حکومت کے ردعمل متضاد ہیں۔ پی اے ٹی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا۔ پنجاب پولیس سمیت صوبائی انتظامیہ کا موقف یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے رپورٹ کو نقائص سے بھرپور اور نامکمل قرار دیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ بعض مبصرین کا تاثر یہ ہے کہ نجفی رپورٹ میں خاص طور پر کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن تمام ’’متعلقہ‘‘ افراد کو اس جرم میں بلاتخصیص ساتھ دینے کا قصور وار قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ایک فریق کے دعوے کے مطابق دس، دوسرے فریق کے دعوے کے مطابق 14افراد جان سے گئے اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ پنجاب حکومت نے منگل ہی کے روز سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمان خان پر مشتمل یک رکنی کمیٹی کی 52صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں ماڈل ٹائون کے واقعے، نجفی کمیشن کی حیثیت اور اسکی سفارشات کے حوالے سے متعدد قانونی نکات زیر بحث لاتے ہوئے حتمی تجزیئے میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مذکورہ رپورٹ کو قبول نہ کرے، اس باب میں انکوائری کرے اور ضروری قانون سازی کرے۔ جسٹس نجفی کی رپورٹ بعض حقائق پر پردہ ڈالنے کی نشاندہی کرتی محسوس ہوتی ہے۔ رپورٹ میں ایسی قانون سازی پر بھی زور دیا گیا ہے جس میں مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہو کہ وہ پولیس کو فائرنگ کا حکم دے سکے۔ مذکورہ انکوائری رپورٹ قانونی اعتبار سے ’’فیصلے‘‘ کی نہیں ’’شہادت‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے مگر موجودہ حکومت کے لئے، جو پہلے سے مشکلات میں مبتلا ہے، سیاسی اثرات کی موجب ہوسکتی ہے۔ ملکی معاملات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اپنے مفاد کی بات کو ’’مکمل درست‘‘ اور مخالفت میں کی جانے والی بات کو ’’مکمل غلط‘‘ کہنے کی روش سے اجتناب برتا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارا سماج جذباتی تقسیم کی دلدل سے نکل کر بالغ نظری کا ثبوت دے۔ خاص طور پر پارلیمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ التوا میں پڑی ہوئی انکوائری رپورٹوں کو منظر عام پر لائے اور ہر شعبے میں شفافیت یقینی بنانے کے لئے تمام اقدامات کرے۔

تازہ ترین