• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ نے القدس، اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا، یورپ سمیت دنیا بھر اور عالم اسلام کی طرف سے شدید تنقید

Todays Print

کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی دبائو کے باوجود بدھ کومقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنی سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیاجس کے بعد امریکا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ وہ کام ہے جو ہونا ضروری تھا۔اس فیصلے کو اختلافات کا سامنا رہا۔امن کیلئے یہودی، عیسائی اور مسلمانوںکو متحدہونا پڑے گا۔فیصلے سے دو ریاستی حل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ اقدام امریکا کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا، اگر دونوں فریق اس بات پر راضی ہو جائیںتو امریکا دو ریاستی حل کا حامی ہے،ہم خطے میں امن اور سلامتی چاہتے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل میں یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے ،ٹرمپ نےامریکی محکمہ خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کا عمل شروع کردیں،ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ماضی میں امریکی صدور نے مقبوضہ بیت المقدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے سے گریز کیا ، اب ہم یہ کررہے ہیں ، انہوں نے خطے میں امن ، صبر اور عدم تشدد پر زور دیا ۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے تاریخی سنگ میل قرار دے دیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کیساتھ اسی صورت مذاکرات ہوں گے جب وہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کریں گے ۔ امریکی حکومت کے ملازمین اور ان کے خاندانوں کو مقبوضہ بیت المقدس کے اولڈ سٹی اور مغربی کنارے میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ذاتی سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی سفارتخانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کا عمل 6ماہ بعد شروع ہوگا ۔ قبل ازیں امریکی کابینہ کے اجلاس سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتخانےکی منتقلی بہت عرصےسےرکی ہوئی تھی،یہ ایک بہت بڑا اعلان ہے جو اسرائیل ، فلسطینیوں اور مشرق وسطیٰ سے متعلق ہے ، کئی امریکی صدورنے کہا کہ وہ یہ کام کرناچاہتےہیں لیکن نہیں کیا،ہمت کی بات تھی یاانھوں نےاپنا ذہن تبدیل کرلیا، میں کچھ نہیں بتاسکتا۔ فلسطین نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کو تباہ کردیا ہے ۔فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے ۔ٹرمپ کے فیصلے کے بعدامریکا امن مذاکرات میں ثالث نہیں رہ سکتا ۔ برطانیہ میں فلسطینی سفیر نے اس کو مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ’موت کا بوسہ‘ اور اعلان جنگ قرار دیا ہے۔فلسطین نے امریکی فیصلے کے خلاف ملک بھر میں تین روزہ احتجاج جبکہ حماس نے اسرائیل کیخلاف ایک نئے انتفاضہ کا اعلان کردیا ۔حماس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ حماس نے کہا ہے ٹرمپ کے جارحانہ فیصلے پر امریکی مفادات پر حملوں کا اعلان بھی کیا۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے ٹرمپ کےفیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتی جس کا کوئی فائدہ نہیں اور اس سے امن کی کوششوں کو نقصان ہوگا۔ ایران نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اردن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔مصر کا کہنا ہے کہ وہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ٹرمپ کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں امریکا اور اسرائیل کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ استنبول میں ہزاروں افرادنے امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے ۔ فلسطین کے کئی علاقوں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جبکہ غزہ میں ہزاروں مظاہرین نے امریکی اور اسرائیلی پرچم نذر آتش کردیے،مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں ۔پاکستان نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ امریکی دارا لحکومت کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کیخلاف ہے۔ مصر نے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے ۔ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے صورت حال پر شدید فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔پوپ فرانسس نے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ سعودی عرب ، اردن ،یورپی یونین،فرانس، جرمنی ، برطانیہ اور ترکی نے بھی اسرائیلی فیصلے کی مخالفت کی ہے ۔ترکی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ خطے کو ایک لامتناہی آگ میں دھکیل دے گا، ترکی نے فیصلے کو غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ فیصلہ اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کے منافی ہے۔ ترک صدر نے او آئی سی کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔ ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنا ناکامی کی علامت ہے۔ فرانسیسی صدر نے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین تشدد سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت سے حل کیا جانا چاہئے۔ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل نے ٹرمپ کے فیصلے کو غیر فائدہ مند قرار دیا ہے۔جرمن وزارت خارجہ نے یروشلم کا سفر کرنے والے اپنے شہریوں کو تنبیہ جاری کی ہے۔ برطانیہ نے ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل نہیں کرے گا۔سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ ترک صدر اور شاہ سلمان نے ٹرمپ کے فیصلے کے بعد موجودہ صورتحال پر گفتگو کی ہے ۔ قطر نے امریکی صدر کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے امن کیلئے سزائے موت سے تعبیر کیا ہے ۔ لبنانی صدر مائیکل عون نے کہا ہے کہ فیصلے نے خطے کو عدم استحکا م سے دوچار کردیا ہے ۔حزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نعیم قسیم نے کہا ہے ٹرمپ کی جانب سے ہونے والے اعلان سے ثابت ہوگیا کہ اسرائیل امریکا کے لیے اہم ہے اور فلسطینی ریاست کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا جنوبی لبنان میں آزادی کے لیے مزاحمت کرتے رہیں گے اور اسرائیل کو شکست دے کر رہیں گے۔قبل ازیں سعودی عرب کے شاہ سلمان نے امریکی رہنما کو بتایا کہ ایسا کوئی بھی اقدام دنیا بھر کے مسلمانوں کو اشتعال دلا سکتا ہے۔ میکسیکو نے کہا ہے کہ وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے منتقل نہیں کریں گے جبکہ تیونس کی طاقت ور لیبر یونین سے امریکا اور اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا اعلان کردیا ہے ۔ عرب لیگ نے ٹرمپ کے فیصلے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے میں سنگین نتائج مرتب ہوں گے جبکہ امریکا کی جانب سے مذاکرات میں ثالثی پر بھی سوالات اٹھیں گے، یورپی یونین نے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کا معاملہ فریقین کے درمیان بات چیت سے حل کیا جائے۔ امریکی ارکان کانگریس کی بیشتر تعداد نے ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ چند ارکان نے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

تازہ ترین