• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کرکے ایک اعتبار سے عالمی امن کو آتش فشاں کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ بدھ کے روز وائٹ ہائوس سے کئے گئے خطاب اور سرکاری بیان کے اجرا کے نتیجے میں عالم اسلام ہی نہیں یورپ، ایشیا، براعظم امریکہ سمیت بیشتر ملکوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ترکی، فلسطین، اردن اور لبنان سمیت کئی ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ پاکستان نے درست طور پر امریکی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور علاقائی اور مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی پالیسیاں سو سو سال پہلے سے طے شدہ منصوبوں کا حصہ ہوتی ہیں اور بعض مبصرین کے خیال میں اہم فیصلے ان مواقع کا شاخسانہ ہوتے ہیں جو زیر التوا منصوبوں کو بروئے کار لانے کے لئے سازگار ہوجاتے یا بنادیئے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی تقریروں، صدر منتخب ہونے کے اعلان کے وقت کئے گئے خطاب اور بعد کے بیانات و اقدامات سے جو سمت واضح تھی اس کے پیش نظر وائٹ ہائوس کے اتحادیوں سمیت عالمی رہنمائوں کی طرف سے انہیں مذکورہ نوعیت کے فیصلوں سے اجتناب کا مشورہ دیا جارہا تھا۔ مگر انہوں نے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی اس اپیل کو بھی نظرانداز کردیا کہ مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے۔ سعودی عرب، اردن، مراکش، ترکی، مصر برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس، عرب لیگ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، پاپائے روم اور امریکی محکمہ خارجہ کے بعض عہدیداروں کی طرف سے مذکورہ فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔ حالات جس نہج پر جارہے ہیں، ان میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا یہ بیان وزن رکھتا ہے کہ اب فلسطینی ریاست کا حصول ناممکنات کا حصہ محسوس ہورہا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1947میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین میں دو الگ الگ اسرائیلی اور فلسطینی ریاستوں کے قیام کی منظوری دی تو طے پایا تھا کہ بیت المقدس عالمی کنٹرول میں الگ علاقہ ہوگا مگر ایک برس بعد ہی1948 میں صہیونی دہشت گرد تنظیموں نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تاہم اس کا شرقی حصہ جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اردن میں شامل تھا۔ 1967کی جنگ میں اسرائیل نے شہر کے باقی حصے اور مغربی کنارے پر قبضہ کرکے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیدیا تھا جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ 1995میں امریکی کانگریس نے عالمی قوانین کی خلاف وزی کرتے ہوئے ’’ایمبیسی ایکٹ‘‘ منظور کیا جس پر عملدرآمد عرب ممالک کے ردعمل سے بچنے کے لئے ملتوی کیا جاتا رہا مگر صدر ٹرمپ کے تازہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے مسلم ممالک کے داخلی مسائل اور ان کی صفوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کا فائدہ اٹھایا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے صدر ٹرمپ کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کے لئے تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس 13دسمبر کو استنبول میں طلب کرلیا ہے جس کی پاکستان نے تائید کردی ہے۔ یہ اجلاس فلسطین اور اردن کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔ ترکی کے صدر اردوان نے بیت المقدس کو مسلمانوں کی ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور فلسطینیوں کی تنظیم حماس نے انتفادہ تحریک شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، صدر ٹرمپ کے الفاظ یا اقدامات کا اسی انداز میں جواب دینا مسلم دشمن قوتوں کی سازش کے عین مطابق ہوسکتا ہے۔ آگ کا جواب آگ نہیں ہوتی، آگ کا جواب پانی ہے۔ دنیائے اسلام کو سفارت کے ذریعے تدبر سے عالمی سطح پر اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنی ہوگی اور جیسا کہ نظر آرہا ہے، صدر ٹرمپ کے انتہا پسندانہ فیصلے کے خلاف پوری دنیا اکٹھی ہوگئی تو یہ بات کرہ ارض کے لئے نعمت غیرمترقبہ ہوگی۔

تازہ ترین