• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اداروں سے بدعنوانی ختم کرنے، بدعنوان عناصر کا احتساب کرنے اور لوٹی گئی رقوم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کرنے کی غرض سے ماضی میں بہت سے محکمے قائم کئے گئے جو نہ صرف اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ ان کے اپنے اندر بدعنوانی نے جنم لیا اور بدعنوان مافیا نے کئی ذمہ دار افسروں اور اہلکاروں کو بھی اس کام میں شریک کرلیا جس سے آوےکا آوا بگڑ کر رہ گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تقرری سے قبل قومی احتساب بیورو بھی ایک سوالیہ نشانہ بن کر رہ گیا تھا نئے چیئرمین نے صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے احتساب کی شروعات اپنے ہی ادارے سے کرنے کا مستحسن فیصلہ کیا اور نیب افسران کو زیرالتوا مقدمات کی جلد سماعت کے لئے درخواستیں دائرکرنے کی ہدایت جاری کیں انہوں نے نیب میں اس وقت جاری499 انکوائریوں،287انویسٹی گیشنز اور مختلف مجاز عدالتوں میں بدعنوانی کے زیر سماعت1138 مقدمات کی جو تفصیلات طلب کی ہیں اس سے نیب ہیڈ کوارٹر اور تمام علاقائی دفاتر میں پڑی انکوائریاں مکمل کر کے ان کے ریفرنس دائر کرنے کی رفتار تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت اسلام آباد کے علاوہ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، راولپنڈی، ملتان اور سکھر میں نیب کے علاقائی دفاتر کام کر رہے ہیں۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں کیس سردخانوں میں پڑے ہیں جن کے تحت متعدد افراد جو نیب کو مطلوب ہیں یا اس سے کئی گنا زیادہ ایسے کیس اور بدعنوان عناصر جو قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں لیکن قانون سے بچے ہوئے ہیں، ان کی پکڑ نیب کے لئے ایک آزمائش ہے جیسا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے 900 ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے اسے قومی خزانے میں جمع کرانے کی غرض سے جواقدامات کئے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ رقوم ایسی ہیں جو سخت گیر اور دیانتدارانہ اقدامات کی وجہ سے قومی خزانے میں واپس آسکتی ہیں اور مجرموں کو چاہے وہ ریٹائرڈ ہو یا حاضر سروس، قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین