• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا ورثہ صحت کے حوالہ سے سنبھلنے میں کچھ وقت لگے گا۔ لکھنےکی ہمت نہیں تھی کہ اس کیلئے یکسوئی درکار ہے اور اک خاص حد سے بڑھی ہوئی تکلیف یکسو نہیں ہونے دیتی لیکن ایک خبر اور ایک کالم ایسا تھا جس نے قلم اٹھانے پر مجبورکر دیا ورنہ آج کل تو قلم اٹھانا جوئے شیر لانا ہی سمجھیں۔خبر یہ ہے کہ ایم شریف چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو گیا۔یہ ایم شریف کوئی سپرسٹار نہیں تھا۔ اس لئے کوئی بھی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوگا کہ یہ ایم شریف تھا کون جس کی موت کو اخباروں میں سنگل کالمی خبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ 70،80کی دہائی میں اس نے ریڈیو ٹی وی پر خاصی دھوم مچائی تھی۔’’کریلا‘‘(پی ٹی وی کے ایک انتہائی مقبول ڈرامے کا مشہور کردار ) اپنے وقت کے سپرسٹارز سے زیادہ مقبول ہو گیا تھا لیکن پھر وہی ہوا جو اکثر شہرتوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔70کی دہائی میں ریڈیو ٹی وی آرٹسٹوں کا ایک گروہ تھا ۔ڈاکٹر انور سجاد جیسا ہر فن مولا ان کا گاڈ فادر، ایم شریف اس گروہ کا انتہائی فعال، سرگرم رکن جس نے چند کرداروں میں خاصی دھوم مچائی اور پھر بتدریج فیڈ آئوٹ ہوتا چلا گیا۔’’ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا‘‘کہ اب تو ڈاکٹر انور سجاد جیسے نابغہ روزگار کا بھی نام سنائی نہیں دیتا۔چند سال پہلے تک ایم شریف کے ساتھ رابطہ تھا کہ کبھی کبھار ’’بیلی پور‘‘ آ نکلتا۔کچھ اور ’’پرانے‘‘ بھی سہانے دنوں کی یاد منانے جمع ہو جاتے ۔پھر غیور اختر رخصت ہوا ۔ایم شریف بیمار رہنے لگا اور اب کوئی بیماری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔یہ چند سطریں جو اس کی یاد میں لکھیں نہ خراج تحسین ہے نہ تعزیت لیکن نہ لکھتا تو دل پر بوجھ رہتا اور اپنا آپ اچھا نہ لگتا۔اللہ پاک اس کا نیا سفر آسان کرے ۔اب چلتے ہیں اس کالم کی طرف جو ایک دن پہلے برادرم انصار عباسی نے لکھا۔عنوان تھا ’’KPKنے پنجاب اسپیڈ کو پیچھے چھوڑ دیا‘‘ذاتی طور پر مجھے کسی کے آگے نکل جانے یا پیچھے رہ جانے سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ پیچھے رہ جانے والے بھی تو اپنے ہی ہیں لیکن انصار عباسی کے کالم کا موضوع میرے پسندیدہ ترین موضوعات میں سے ایک ہے اور میں اس پر مختلف حوالوں سے درجنوں کالم لکھ چکا ہوں اور ہرگز نہیں جانتا تھا کہ KPKمیں اس سمت میں سفر کا آغاز ہو چکا ہے ۔میرے نزدیک لیڈر شپ نام ہی ’’انسان سازی ‘‘ اور ’’نیشن بلڈنگ‘‘ کا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانا۔ ماہرین اقتصادیات اور سڑکیں ،اوورہیڈز، انڈر پاسز بنانا انجینئرز اور مستریوں کا کام ہے ۔لیڈر تو آدمی کو انسان اور ہجوم کو قوم بناتا ہے ۔کئی بار عرض کیا کہ ہم پاکستانیوں کا حقیقی مسئلہ اور المیہ اقتصادیات نہیں، اخلاقیات کے بحران کا ہے۔ بقول برادرم انصار عباسی ’’KPKکے تعلیمی اداروں میں اب طلباء کی کردار سازی کیلئے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق صوبائی چیف سیکرٹری نے محکمہ تعلیم کو ہدایات جاری کی ہیں کہ تعلیمی نصاب میں طلباء کی کردار سازی کیلئے اخلاقیات پر خصوصی زور دیا جائے ۔صوبائی تعلیمی اداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ آئندہ تعلیمی سال سے ابتدائی طورپر اخلاقیات سے متعلق 35موضوعات پڑھائے جائیں تاکہ نئی نسل بہترین اخلاق اور اچھے کردار کی مالک ہو‘‘سبحان اللہ ....کہ یہی ایک کام دوسرے ہزار کاموں پر بھاری ہے اور عظیم ترین سنت بھی، ہمارے آقاؐ کا یہی تو وہ معجزہ تھا جس نے انسانی تاریخ کے سارے دھارے تبدیل کرکے سب کچھ تہہ وبالا کر دیا ۔خالی پیٹ، ننگے پائوں ، ادھورے ہتھیاروں والے بدوئوں کے سامنے دنیا سرنگوں اس لئے ہوئی کہ انہیں آدمیوں سے اعلیٰ ترین انسانوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔’’اخلاقیات‘‘ ہو تو ’’اقتصادیات ‘‘ بھی غلاموں کی طرح سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے کھنچی چلی آتی ہے ۔عزت آبرو چاہئے تو اسی طرف لوٹنا ہوگا کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل ہی ممکن نہیں۔ تاریخ سے گواہی لے لو ۔اخلاقیات ہے کیا ؟اس کا احاطہ پھر کبھی کہ اس کی گہرائی و گیرائی بے انت ہے ۔فی الحال تو صرف اتنی گزارش ہے کہ اگر KPKنے میٹرو یا اورنج ٹرین میں پنجاب کی نقل کی تو پنجاب اس معاملہ میں KPKکی نقالی میں ہرگز نہ شرمائے ۔خیر اور خوبصورتی میں مقابلہ نیک ترین شگون ہے لیکن ہم نے تو شر اور شرارت میں، بدی اور بدصورتی میں مقابلہ کی ضد اختیار کر رکھی ہے ۔توفیق ہو تو باقی صوبے بھی ادھر توجہ دیں کہ یہ سب کچھ ان سب کا مشترکہ ورثہ ہے ۔حکمران انسان سازی کر لیں.......باقی ’’سازیاں‘‘ اک خودکار نظام کے تحت خودبخود ہوتی چلی جائیں گی ورنہ سب سکریپ سمجھو کہ دنیا میں سب سے قیمتی میٹریل ’’ ہیومن میٹریل‘‘ ہے۔

تازہ ترین