• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک عرصے سے عمران خان کی گالم گلوچ اور ان کی روحانی اولاد کی بے ہودگیوں کو دیکھتا چلا آ رہا ہوں مگر جب بھی ان کے بارے میں لکھتا ہوں اپنے جذبات پر قابو پا کر لکھتا ہوں کہ کہیں میں اپنی زبان بھی گندی نہ کرلوں، حالانکہ انہوں نے مجھ ایسے ایک ادنیٰ لکھاری کو بھی نہیں بخشا اور میرا نام لے کر وہ کچھ کیا جس پر میں انہیں عدالت میں کھینچ سکتا تھا، مگر میں ہر بار معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ انہوں نے ایک عرصے سے نواز شریف کو جس طرح بدتہذیبی کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور اس کے جواب میں میاں صاحب اپنی خاندانی روایات کے مطابق وہ زبان استعمال نہیں کرتے جو ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر کوئی اور ہوتا تو ضرور کرتا۔آج میں نے خان صاحب سے سارے اگلے پچھلے بدلے چکانے کا ارادہ کیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ کالم کا عنوان ہی ’’عمران خان تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟‘‘ رکھتا اور پھر میں ان سے پوچھتا کہ تمہاری والدہ محترمہ شوکت خانم مرحومہ و مغفورہ نے تمہاری یہ تربیت کی تھی جو تمہارے ہر بیان اور ہر اقدام میں نظر آتی ہے، مگر میں نے ارادہ ترک کردیا کہ اس صورت میں تو میرا شمار بھی خان کی اس روحانی اولاد میں ہوگا جواللہ جانے کس کس کے ’’بوٹ‘‘ پالش کرتے ہیں اور دوسروں کو جوتے پالش کرنے کا طعنہ دیتے ہیں اور میاں نواز شریف کا تنخواہ دار قرار دیتے ہیں، حالانکہ اگر تنخواہ کی بات ہے تو ادھر سے تنخواہ تو کیا کسی کو شاباش تک نہیں ملتی جبکہ نواز شریف کو گالیاں دینے پر مامور افراد کی تنخواہوں کے بارے میں، میں بتائوں تو لاکھوں میں تنخواہ لینے والے بھی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں!
سو صورتحال یہ ہے کہ عمران خان صاحب اپنی طرف سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دلوا کرخود کو سپرمین سمجھنے لگے ہیں اور اب وہ انہیں قید بامشقت دلوانے کے لئے اپنی خفیہ کوششوں میں مشغول ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ نواز شریف کی مقبولیت میں دس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ جب 2018ء میں ان کی جماعت الیکشن (اگر ہوئے) میں اتری تو خان صاحب کو دن میں بھی تارے نظر آئیں گے۔ تاہم خان صاحب اپنی طرف سے نواز شریف صاحب کے حوالے سے سارے معرکے سر کر چکے ہیں، اب انہیں شہباز شریف کی ’’فکر‘‘ لاحق ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ دونوں بھائی یک جان د و قالب ہیں، دشمن جتنی چاہیں افواہیں اڑائیں، وہ ان دو بھائیوں کی عشق کی حد تک محبت میں دراڑ نہیں ڈال سکتے، مگر بقول شخصے کوشش کرنے میں کیا حرج ہے، چنانچہ اب عمران خان کی تو پوں کا رخ شہباز شریف کی طرف ہو چکا ہے، انہیں اور تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی، آئے بھی کیسے، سمجھ نام کی چیز سے ان کا کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔وہ ماڈل ٹائون کے واقعے کو بنیاد بنا کر انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں یا حدیبیہ پیپر ملز کا ملبہ ان پر ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ جس تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار تھا اس میں شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی اور حدیبیہ پیپر کا کیس کئی دفعہ کھل چکا ہے اور کچھ نہ ملنے پر بند ہو چکا ہے، چنانچہ خان صاحب کو صرف اور صرف گالم گلوچ پر گزارہ کرنا پڑے گا۔
عمران خان کو اللہ اگر کبھی توفیق دے تو وہ پنجاب کے گلی کوچوں میں گھومیں پھریں، ترقیاتی کام دیکھیں اور عوام سے پوچھیں کہ شہباز شریف کیا ہے تو وہ احمقوں کی دنیا سے باہر آ سکتے ہیں،مگر شاید کبھی باہر نہ آسکیں کہ وہ فیس بک کے وزیر اعظم ہیںاور چند بدنام ترین اینکرز کے لاڈلے ہیں مگر نہیں جانتے کہ صرف اس وقت تک ان کے لاڈلے ہیں، جب تک یہ اینکر جن کے لاڈلے ہیں،عمران خان ان کے لاڈلے نہیں رہتے۔ عمران خان کی حیثیت اس شاپر کی ہے جسے استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہےاور پھر ہوائیں اسے کسی گٹر میں جا پھینکتی ہیں، اس کے برعکس نواز شریف ہوں یا شہباز شریف یہ ایک زندہ جاوید سیاسی حقیقت ہیں، انہوں نے اپنے کام سے پاکستانی عوام کے دل جیتے ہیں۔ آج بھی مسلم لیگ(ن) کے سارے ایم این اے نواز شریف کے ساتھ ہیں، بہت کوششیں ہوئیں مگر تاحال راوی سکون سے بہہ رہا ہے۔ پنجاب میں بھی صورت حال یہی ہے، شہباز شریف کا معاملہ یہ ہے کہ میں جب کبھی پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مختلف شہروں میں جاتا ہوں تو دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ یار تم ہمیشہ شہباز شریف کو ادھار نہیں دے سکتے؟ پاکستان کے چاروں صوبوں میں شہباز شریف کی کارکردگی نمبر ون ہے۔ بیرونی سربراہ بھی متعدد بار شہباز شریف کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے زبردست خراج تحسین پیش کر چکے ہیں،لہٰذا عہد حاضر کے سیاسی شیخ چلی قبلہ و کعبہ عمران خان صاحب سے میری درخواست ہے کہ وزیر اعظم تو انہوں نے بننا کوئی نہیں، بلکہ دن بدن ان کی دماغی حالت جس طرح تشویشناک صورت حال اختیار کر تی چلی جا رہی ہے، وہ کچھ عرصہ کسی اسپتال میں آرام کے لئے داخل ہوجائیں، وہاں ممکن ہے ڈاکٹرز انہیں کچھ ایسی ادویات بھی دیں جن کا سائیڈ ایفیکٹ کوئی نہ ہو اور ان کی توانائی بھی برقرار رہے۔ آخر میں صرف یہ کہ نواز شریف کا آپ نے پیچھا کرکے دیکھ لیا، ان کا کچھ بگڑنا تو کیا تھا ان کا بہت کچھ سنور گیا ہے۔ اب پورے پاکستان کے جمہوریت پسند، ان کے نقطہ نظر کے حامی ہیں اور یہاں بھی ان کے دلوں کے بہت قریب آ چکے ہیں۔ آپ یقین کریں، آپ شہباز شریف کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، وہ اگرچہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں مگر پاکستان بھر کے لوگ ان کی اعلیٰ کارکردگی، ان کی دیانت اور ان کی امانت کے مداح ہیں۔ میرا کام مشورہ دینا تھا، وہ میں نے دے دیا، باقی آپ کی مرضی ہے!
آخرمیں ایک شعر، جس کا کالم کے سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں۔ ؎
ساقی تیری شراب بھی جعلی تیری طرح
آیا نہیں خمار، تیری پین دی سِری

تازہ ترین