• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت کم ہے، کام زیادہ ہیں سو نہ شب کی تیز ٹھنڈی ہوائوں کے تھپیڑوں کا خوف ہے اور نہ ہی بے آرامی کی پروا۔ تہران میں صبح سے شام تک مصروفیات رہتی ہیں۔ وحدت کانفرنس کے کئی یادگاری اجلاس ہو رہے ہیں، اس کانفرنس میں نوے سے زائد ممالک کے نمائندے شریک ہیں، پاکستان سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کانفرنس کے ممتاز مقررین میں شامل ہیں۔ ایران کے کئی ایک سابق وزراء بھی مختلف اجلاسوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ ایرانی قیادت کی کیا خواہشات ہیں، وہ دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں اس پر اگلے کالم میں بھرپور تبصرہ کروں گا۔ فی الحال چند اور مختصر باتیں ہو جائیں تاکہ آپ کو ایران سمجھنے میں آسانی رہے۔
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں بتایا ہے کہ یہاں تہران میں دن بھر مصروفیات رہتی ہیں اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ ایک رات مشہد میں گزار کر اگلی صبح تہران لوٹ آئوں۔ اب میں یہ سطور تہران کے مہرآباد ایئر پورٹ سے رقم کر رہا ہوں، نصف شب ہونے کو ہے اور یہ سفر نصیب مشہد جانے کے لئے تیار ہے۔ مشہد جانے کا مقصد صرف اور صرف امام رضا ؒکے مزارِ اقدس پر حاضری دینا ہے۔ تہران، اسلام آباد سے بڑا شہر ہے، ایرانی اس شہر کے دو ہوائی اڈے استعمال کرتے ہیں۔ اندرون ملک پروازوں کے لئے مہر آباد ایئر پورٹ استعمال ہوتا ہے جبکہ بیرونی پروازوں کے لئے امام خمینی ایئر پورٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی طرح تہران کے ایک جانب پہاڑ ہیں مگر تہران میں سردی اسلام آباد کی نسبت زیادہ ہے، یہاں یخ بستہ ہوائوں کا بسیرا ہے۔ تہران کی سڑکیں اسلام آباد سے کہیں بہتر ہیں، ایک تو سڑکیں بہت زیادہ ہیں اور پھر پلوں کی بھرمار بھی ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح یہاں بھی دائیں ٹریفک ہے۔ فارسی میٹھی زبان ہے، صاف ستھرے تہران میں مجھے ایک بات شدت سے محسوس ہوئی کہ ایرانی لیڈر شپ زبردست ہے مگر ایران میں انتظامی امور ادا کرنے والے سست ہیں۔ کانفرنس ہال میں داخلے کا منظر ہو یا پھر ایئرپورٹ کا اندرونی نظارہ ہو، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کام کرنے والے چستی سے نہیں بلکہ سستی سے کام لیتے ہیں۔ اس تمام تر سستی کے باوجود ایرانی تسلی سے امور نمٹانے کے قائل ہیں۔
رات بارہ بجے چلنے والی پرواز ایک گھنٹے بعد مشہد اتر چکی ہے۔ مشہد میں میری حاضری رات ڈھائی بجے سے ساڑھے تین بجے تک رہی۔ مشہد، تہران سے بھی زیادہ سرد ہے۔ یہ شہر دو پہاڑوں کے درمیان ہے، صوبہ خراسان کے اس شہر میں بھی تہران کی طرح صاف ستھری سڑکیں ہیں، ایرانی شہروں میں اعلیٰ درجے کی صفائی ہے۔ مجھے ایران کا دوسرا شہر دیکھنے کا اتفاق ہو رہا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایران کے شہروں میں چمکتی ہوئی سڑکیں ہیں، اگر آپ ایرانی شہروں کا رات کے وقت جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ جس وقت ایرانی سو جاتے ہیں تو اس وقت بھی شہروں کی روشنیاں جاگتی رہتی ہیں۔ ایران میں لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور ہی نہیں۔ نہ یہاں بجلی کی بندش ہوتی ہے اور نہ ہی گیس کی کمی ہوتی ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ ایران کو طویل عرصے تک اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، اب بھی ان پابندیوں کے اثرات اسی طرح ہیں کیونکہ کوئی بین الاقوامی بنک ایران میں کام نہیں کرتا۔ ایک طرف ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں تو دوسری طرف ایران پر جنگیں مسلط کی جاتی رہیں۔ ایران نے ان اقتصادی پابندیوں اور جنگوں کے باوجود بے مثال ترقی کی۔ ایرانیوں کے ترقی کرنے کی بڑی وجہ ان کا پرعزم ہونا ہے، ایرانی لوگ طبعاً امن پسند ہیں۔ ایرانی مہذب، پڑھے لکھے اور علم دوست ہیں۔ انہیں ادب اور ثقافت سے بھی خاص لگائو ہے۔ ایران کو صاف ستھرا رکھنے میں ایرانیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ ایرانی ہماری طرح دکانوں کے سامنے پارکنگ نہیں کرتے، اس طرح ان کی سڑکوں پر رش بھی نہیں ہوتا۔ ایران میں کوئی چھابڑی فروش فٹ پاتھ میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ ایرانی دکاندار تجاوزات کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے، وہ خود کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھیں۔
پچھلے دو دن صبح سے شام تک کانفرنس کی مصروفیات رہیں، شام ہوتے ہی انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کئی ایرانی ٹی وی چینلز کے علاوہ اخبارات اور نیوز ایجنسیوں نے مجھ ناچیز سے انٹرویو کئے۔ گزشتہ شام ایران کے سرکاری ٹی وی نے ڈیڑھ گھنٹے کا انٹرویو کیا۔ میں اپنے ساتھ ایران میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالبعلم فرحان بخاری کو بھی لے گیا تھا، ایک پروگرام میں اس نوجوان نے بڑی مدلل گفتگو کی۔ تہران میں چند ایرانی لڑکیوں نے ’’لو محمدؐ‘‘کے نام سے مہم شروع کر رکھی ہے، کچھ نے ’’امن کے پیغام‘‘ کے نام سے مہم چلا رکھی ہے۔ اسلام آباد سے تہران تک اسلام آباد کے ایرانی کلچرل قونصل خانے کا بھرپور تعاون حاصل رہا خاص طور پر ڈاکٹر علی بوتراب تو اس سلسلے میں بہت سرگرم رہے۔ مسلم ممالک کے نمائندوں کی اس یادگار کانفرنس کے روح رواں ڈاکٹر روشنی تھے۔ تہران میں مسٹر حلوائی نے مسلمان سائنسدانوں کو ’’مصطفیٰ ؐ ایوارڈ‘‘ دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ یقینی طور پر مسلمان دنیا میں سائنس کی ترقی کے لئے ایک حوصلہ افزا اقدام ہے۔
میں نے پچھلے کالم میں وائی فائی اور سیل فون کا تذکرہ کیا تھا جس کا بہت فیڈ بیک ملا، اس پر پھر کسی روز لکھوں گا۔ ایرانی لباس کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ قریباً ایک صدی پہلے رضا شاہ پہلوی کے والد رضا خان نے زبردستی ایرانیوں کا لباس تبدیل کروا دیا تھا۔ اس عہد میں مغربی لباس اپنانے کی ٹھان لی گئی تھی جو کوئی مقامی ایرانی لباس پہنتا، اُسے ظلم کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ بھی حکومتی رویہ ایسا ہی تھا جو خاتون پردہ کرتی اُسے سرکاری سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اب ایران کی موجودہ نسل ایران کا اصل لباس بھول چکی ہے۔ اس بھول کے باوجود اب بھی جنوبی ایران کے کچھ علاقوں میں لوگ شلوار قمیص زیب تن کرتے ہیں۔
تہران کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے پرانا کابل بھی یاد آ جاتا ہے۔ روسی حملے سے پہلے کابل میں بھی تہران کی طرح فارسی میں لکھے گئے بورڈ آویزاں ہوتے تھے۔ کابل کو جنگوں نے برباد کردیا ورنہ کابل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ معروف پاکستانی سیاستدان انور سیف اللہ ہنی مون منانے کابل گئے تھے، مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ کئی مسلمان ملکوں کے کئی خوبصورت شہر دہشت گردوں نے ویران کر دیئے زیادہ قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ یہ کام ایسے لوگوں نے کیا جنہوں نے اسلام کا نام نہاد لباس پہن رکھا تھا مگر وہ آلہ کار کسی اور کے تھے۔ رئیس امروہوی یاد آ گئے کہ
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہِ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذابِ الٰہی سے بے خبر
اے بے خبر! عذابِ الٰہی یہی تو ہے

تازہ ترین