• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلزپارٹی کی جائے پیدائش مزنگ لاہور ہے، اس پارٹی کو بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ایسے وقت میں اس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی جب عوام کے ذہنوں میں نئی سوچ پنپ رہی تھی جمہوریت کی وہ کھڑکی جو مغرب میں مقبول تھی اس کی ہوا کے جھونکوں نے ہمیں بھی معطر کردیا تھا، تو بھٹو جو ایک ذہین اور خدمت کے جذبہ سے سرشار تھا اس نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اسلام ہمارا دین ہے ، سوشلزم ہماری معیشت ہے ، جمہوریت ہماری سیاست ہے ، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کے ستونوں پر کھڑا کرکے اس پر تلوار سے سجاہوا تین رنگوں کا پرچم لہرادیا جبکہ اولذکر ستونوں پر کھڑی نئی سیاسی جماعت کی پیشانی پر روٹی کپڑ ااور مکان کا دلفریب نعرہ بھی کندہ کروادیا ، پارٹی کے قیام کے وقت اور بعد میںبھٹو نے سیاست اور جمہوریت کے حوالے سے بڑے بڑے ناموں اور زرخیز دماغ رکھنے والوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا،ڈاکٹر مبشر، مرحوم شیخ رشید ، غلام مصطفیٰ جتوئی، ممتاز بھٹو، یحییٰ بختیار، عبدالحفیظ پیرزادہ ، غلام مصطفیٰ کھر، مولانا کوثر نیازی، معراج محمد خان، معراج خالد، مخدوم طالب المولیٰ، مخدوم امین فہیم، شیخ رفیق، قائم علی شاہ یہ وہ چند نام ہیں جو فوراً یا بدیر عوام میں مقبولیت رکھنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی چھتری پر آ بیٹھے تھے اور اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کو یہ حقیقی فوقیت حاصل تھی کہ وہ کھمبا بھی کھڑا کردیتی تو عوام اسے ووٹ دے کر کامیاب بنادیتے تھے ، اقتدار حاصل کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے نیو کلیئر پاور کے حصول کیلئے اس کی بنیادرکھی، یونیورسٹیاں اور ادارے قائم کئے ، میری ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سے بات ہورہی تھی تو انہوںنے مجھے بتایا کہ میں نے ایک مرتبہ ٹرین میں سفر کے دوران بھٹو کو کام کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی میں کیوں ہیں کہ ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ سفر میں بھی کام کرتے ہیں تو بھٹو نے جواب دیا تھا کہ میرے پاس وقت کم ہے میں اپنی موت سے پہلے پاکستان کو نیو کلیئر پاور بنانے کے ساتھ ساتھ یہ سارے کام کرنا چاہتا ہوں جو اس ملک کیلئے ضروری ہیں، ذوالفقار علی بھٹو سے بہت ساری غلطیاں بھی ہوئی ہونگی انہوںنے مخالفین کو کچلنے کیلئے بہت سارے منفی حربے بھی اپنائے ہونگے ، لیکن بھٹو ایک عوامی اور ذہین لیڈر تھا جو کرپشن یا کک بیکس کیلئے کام نہیں کرتا تھا بلکہ ملک کو عروج دینے اورپاکستان کو عالمی سطح پر ایک با عزت ملک بنانے کیلئے کام کرتاتھا، بھٹو نے پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کروائی، پاکستانی لیبر کودوسرے ملکوں میں بھجوانے کیلئے اقدامات کئے ، جنگ کے بعد بھارت میں 90ہزار سے زائد فوجی قیدیوں کو رہا کروایا، مغربی پاکستان کے بارڈر پر دشمن کے قبضے سے بہت ساری زمیں واپس حاصل کی ،کیونکہ بھٹو نہ صرف ایک اچھا سیاست دان اور ذہین شخص تھا بلکہ وہ گفتگو کا بھی ماہر تھا وہ ٹیبل پر ساتھ بیٹھے لوگوں کو اور جلسہ گاہ میں موجود ہزاروں لوگوں کو اپنی باتوں اور تقاریر سے قائل کرنے کا فن جانتا تھا، بھٹو کی اس خوبی کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ جب امریکہ کے سیکرٹری خارجہ ہنر ی کسنجر نے بھٹو سے کہاکہ اگر تم امریکہ میں ہوتے تو میری جگہ تم سیکرٹری خارجہ ہوتے لیکن بھٹو نے بڑاا سمارٹ اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں امریکن ہوتا تو پھر تمہاری جگہ سیکرٹری خارجہ نہیں بلکہ تمہارے صدر کی جگہ صدر ہوتا، بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی جو عمارت تیار کی تھی اس کو گرانے اور پارٹی کو کمزور کرنے کیلئے بھٹوکی معزولی کے بعد ہی بڑے پیمانے پر کوششیں شروع ہوگئی تھیں، لیکن بھٹوجس سے عوام محبت کرتے تھے انہو ںنے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی اس کی بیٹی سے محبت کا یہ رشتہ نبھایا، لیکن جہاں وہ قوتیں جو پاکستان پیپلزپارٹی کو حقارت کی نظر سے دیکھتی اور پارٹی کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتی رہی تھیں اور ناکام رہیں لیکن وہاں پارٹی کے اندر کے فصلی بٹیروں نے پارٹی کے چیتھڑے اڑا دیئے ، آج پارٹی کے قیام کو پچاس سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن پارٹی جلی ہوئی پلاسٹک کی تار کی طرح سکڑ رہی ہے لیکن اب اس کی وجہ پیپلزپارٹی سے حقارت کرنے والی وہ قوتیں نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس پارٹی کی باگ ڈور ہے، ملک میں سیاسی ویکیوم اور پارٹی کے تابناک ماضی کی وجہ سے اب بھی پارٹی کو عروج مل سکتا ہے لیکن دھوکے کے تڑکے سے نہیں اور نہ ہی تقریروں کے مکھن سے، لوگ پارٹی کی طرف لوٹ سکتے ہیں لیکن اس قیادت کو جس نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے نہ صرف پارٹی سے الگ ہو جائے بلکہ اپنے ان رو یوںپر قوم سے معافی بھی مانگے جنہیں ساری قوم جانتی ہے اورسندھ میں بیڈ گورننس اور اقربا پروری کی گندگی کا اعتراف کرکے عوام کی خدمت کو شعار بنائے ،ورنہ اگر دیکھنے کی نظر ہے تو غور کرو’’ٹائی ٹینیک ڈوب رہاہے ۔

تازہ ترین