• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماڈل ٹائون انکوائری ایک ظالم ریاست کی زیادتی او ر ایک ظالم معاشرے کے اذیت پسند رد عمل کو اجاگر کرنے کا ایک موقع تھی۔ یہ موقع اب ضائع ہوچکا ۔ اگر رپورٹ کے موادکو دیکھیں توسب سے اچھنبے والی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے عوام کی نظروں سے اسے کیوں چھپایا ہوا تھا؟رپورٹ کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے ۔اگر شہریوں کے عزت وو قار کے ساتھ جینے کے حق، ایگزیکٹو اتھارٹی کے ناجائزاستعمال، قانون کی حکمرانی کی نفی اور بے قابو ہجوم کے مظاہرے جیسے بنیادی امور پر اس رپورٹ کا جائزہ دیکھیں تو بھی اس کا مواد سطحی اورعمومی بات کرتا ہے ۔
انکوائری کی ٹرمز آف ریفرنس کے محدود ہونے پر تنقید بھی بلاجواز ہے ۔ رپورٹ :’’ منہاج القرآن اکیڈمی اور ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ، ماڈل ٹائون ، لاہور میں پیش آنے والے واقعہ کے حقائق اور حالات جاننے اور ان کا تعین کرنے کے لئے کی جانے والی انکوائری‘‘ کو ٹرمز آف ریفرنس قرار دیتی ہے ۔ کیا اس کا دائرہ کار مزید وسیع ہوسکتا تھا ؟ کمیشن تفتیشی عمل کو اپنی مرضی سے آگے بڑھا کر اپنی تحقیقات اور سفارشات کا اعلان کرسکتا تھا۔ کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ ایک حالیہ مثال ہے کہ ایسا کس طرح کیا جاسکتا ہے ۔ ٹرمز آف ریفرنس کسی رپورٹ کے دلیرانہ ہونے میں رکاوٹ نہیں ہوتے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ جوڈیشل انکوائریزایک درست تصور نہیں ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا حکم دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی اہمیت کے کسی معاملے پر کسی جج کی رائے ہوتی ہے تاکہ ایگزیکٹو اس معاملے پر توجہ دے اور اس سے عوام کو آگاہی ملے ، لیکن عدالتیں اس پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہوتیں۔ اس سے قطع نظر کہ جوڈیشل انکوائریز کے تصور کا بنیادی مقصد کیا تھا، ایسی انکوائریز کی قانونی اہمیت اُس وقت تھی جب عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ نہیں کیا گیا تھا۔ اب یہ عمل آئین کے آرٹیکل 175 سے لگانہیں کھاتا۔
رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے خلاف یہ دلیل دی جاتی تھی ماڈل ٹائون واقعہ کی کارروائی جاری ہے ، اس لئے یہ رپورٹ اس کارروائی کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس عمل کو متاثر ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، لیکن فاضل عدالت نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہ ماتحت عدالتیں اس رپورٹ سے متاثر نہیں ہوں گی، جسٹس کارڈوزو کا حوالہ دیاکہ ۔۔۔’’ منہ زور لہریں اور سیلاب باقی انسانوں کو بہالے جاسکتے ہیں لیکن وہ جج حضرات کے قریب سے گزر جاتے ہیں۔‘‘گویا جج صاحبان پر پیش آنے والے واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، وہ قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔
رجائیت پسندی ایک طرف، لیکن ایک ایسی رائے کو احاطہ ٔ تحریر میں لاتے ہوئے فیصلہ کرنے والے جج صاحبان کی توجہ بٹانے کی کوشش کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ عدلیہ کو تفتیشی عمل میں شریک کرنا درست نہیں ہے ۔ ہمارا قانونی نظام adversarial ہے جس میں عدلیہ خود تفتیش نہیں کرتی ۔ اس کی فعالیت طے شدہ اصول و ضوابط کے اندر ہوتی ہے ۔ لیکن ہم گھبراہٹ کے عالم میںاس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارا نظام کمزور اور غیر فعال ہوتا جارہا ہے ۔ جوڈیشل انکوائریز اور سوموٹو نوٹس لینے کے دیرپا نتائج برآمد نہیںہوئے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر ماڈل ٹائون انکوائری کسی تجربہ کار اور ایماندار افسر اور تفتیشی اور انتظامی امور کے ماہر ، جیسا کہ آئی جی پنجاب طارق کھوسہ ، سے کرالی جاتی ۔
ماڈل ٹائون واقعہ کا اصل ایشو سیاسی مقاصد کے لئے ریاستی اتھارٹی کا ناجائز استعمال، ایگزیکٹو کے احتساب کی روایت کا فقدان ، پولیس کی خودمختاری کے برعکس اس پر سیاسی حکمرانوں کا تصرف اور اس کے ذریعے سیاسی مخالفین کی سرکوبی ہے ۔ پولیس کا اصل مقصد عوام کی جان ومال کا تحفظ ہوتا ہے ۔ اگر رپورٹ اس بات کا کھوج لگاتی اور جائزہ لیتی کہ کہیں پنجاب حکومت نے شہریوں کو آئین میں دئیے گئے جان، مال، عزت ، آبرو، جمع ہونے اور تقریر کرنے کے حق کو سلب تو نہیں کیا؟ اور اگر ایسا ہواہے تو اس کی پاداش میں وزیر ِاعلیٰ پنجاب کو کٹہرے میں کھڑا کردیتی کہ اختیار اور ذمہ داری کو کیوں کر الگ کیا جاسکتا ہے جبکہ اس واقعہ میں 10(یا14) قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ہم بامقصد بحث کررہے ہوتے ۔
لیکن یہ رپورٹ مبہم ہی نہیں، اس میں تحریر اور دلائل کے نقائص بھی جابجا ملتے ہیں۔ یہ کہتی ہے (1) ماڈل ٹائون آپریشن کا محرک سیاسی اور طے شدہ مقاصد کے لئے تھا ، (2) طاہرالقادری کے آفس کے سامنے لگی ہوئی رکاوٹیں ہٹانے کے لئے کی جانے والی پولیس کی کارروائی غیر ضروری اور غیر قانونی تھی، (3) پنجاب حکومت نے ایک وسیع تر انکوائری کرانے سے انکار کرتے ہوئے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی، (4) شہباز شریف نے پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں دیا تھا ، یہ پوزیشن بعد میں اختیار کی گئی ، (5) کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے کم و بیش تمام سرکاری اور پولیس افسران نے خود کو اور پنجاب حکومت کو بچانے کے لئے سچ بولنے سے گریز کیا۔ اٹھارویں صدی کے فرانسیسی دانشور اور وکیل ، مونتی سیکیو نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔’’جب بھی کسی شخص کو اختیار ملتا ہے تو وہ اس کا ناجائز استعمال کرسکتا ہے ، اور وہ اپنے اختیار کو مزید بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ طاقت کے نا جائزاستعمال کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر طاقت کے اوپر ایک اور بھی طاقت ہو۔‘‘
اب یہ چاہے ڈاکٹر قادری، جو چند روز کے بعد پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے جارہے تھے، کے سیکرٹریٹ کے باہر لگی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے کی گئی کارروائی تھی ، یا کسی کو، جیسا کہ پاک ترک آرگنائزیشن، خائف کرنے کی کوشش تھی، پنجاب حکومت کی زیادتیاں اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے پولیس طاقت کے ناجائز استعمال کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کو فی الحال ایک طرف رکھیں۔ آئیے ماڈل ٹائون آپریشن کی نرم سی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک وزیر ِاعلیٰ کی کیا ذمہ داری ہے جن کی نظروں کے نیچے اور جن کے حکم پر لئے گئے ایک انتظامی ایکشن میں چودہ قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں؟آئین شہریوں سے وعدہ کرتاہے کہ قانون کے سوا کوئی بھی اُنہیں جینے اور آزادی کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ اس وعدے کی خلاف ورزی کی گئی ۔ اس آپریشن میں طاقت کے جارحانہ استعمال سے شہریوں کی جانیں اور آزادی چھین لی گئی ۔ اُس سیاسی جماعت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اندازہ لگائیں جس کے وزیر ِاعلیٰ اور وزیر ِقانون نے اس گھنائونے فعل کی ذمہ داری ایس ایچ اوز پر ڈال دی !
کیا پولیس ایک ’’افرادی قوت ‘‘ ہے جس کا مقصد حکمران اشرافیہ کے مخصوص مفادات کا تحفظ ہے ؟ ایک مشہور پولیس کمشنر، سررابرٹ مارک کا کہنا ہے ۔۔۔’’ پولیس کسی طور حکومت کی ملازم نہیں ۔ ہم کسی وزیر یا کسی سیاسی جماعت کے ایماپر کارروائی نہیں کرتے ۔
ہم مجموعی طور پرعوام کے لئے کام کرتے ہیں۔‘‘ جب پولیس آرڈر 2002 کا نفاذ ہوا تھا تو اس کا مقصد پولیس کے نظام کو سیاسی اثر سے پاک کرنا، پولیس فورس کو ذمہ داراور پیشہ ورانہ طور پر موثر اور فعال بنانا تھاتاکہ یہ قانون کی حکمرانی یقینی بنانے میں معاون ہوسکے ۔ اس نے پولیس ایکٹ 1861کی جگہ لینی تھی جو پولیس کو ایک نوآبادیاتی دور کی طاقت کے طور پر دیکھتا تھا اور جس کا مقصد مقامی افراد کودبانا اور کنٹرول کرنا تھا ۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ابتدائی مرحلے پر ایک آمر نے پولیس فورس کو جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن اس کے بعد سے جمہوری حکمرانوں نے پولیس کی غیر جانبداری اور انتظامی فعالیت کو اپنے بس میں کرلیا ؟انھوں نے پولیس سسٹم میں اصلاح کے لئے اٹھائے جانے والے ابتدائی اقدامات پر پانی پھیر دیا ۔
جب پولیس کو شہریوں پر جبر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اُس قانونی جواز سے محروم ہوجاتی ہے جو ریاستی ایکشن کو سہارا دیتا ہے ۔ پولیس کی کسی زیادتی کے تدارک کے لئے عدالت موجود ہوتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے جسٹس سسٹم کی طرف سے شہریوں کے ساتھ کی گئی زیادتی کا مداوااتنی تاخیر سے اور اتنا معمولی ہوتا ہے کہ یہ ڈیٹرنس نہیں بن پاتا۔ چنانچہ زمینی حقائق سے پھوٹنے والی دانائی ہمیں باور کراتی ہے کہ ہم قانون کی تابع داری کی بجائے ڈنڈے کی زبان میں بات کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم مشتعل ہجوم اور بپھرے ہوئے جتھوں کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ اگر آپ کمزور اورامن پسند شہری ہیں تو ریاست آپ پر چڑھ دوڑے گی۔ لیکن اگر آپ فسادی ہیں اور آپ کے ہمراہ ایک بپھرا ہوا ہجوم ہے تو پھر آپ کو غیر مشروط طور پر خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔
ایک مہذب ملک میں افراد اور ہجوم ، چاہے جو بھی مقصد ہو، کو پولیس افسران پر حملہ کرنے پر کڑی سزا ملتی ہے ۔ ایسے ممالک میں پولیس کو ریاست کی طاقت ، نہ کہ کسی حکمران اشرافیہ کے فعال بازو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کسی مہذب ملک کے وزیر اعلیٰ کو جرات نہ ہوتی کہ وہ اپنی کوتاہی کا الزام ماتحت پولیس افسران پر لگاتا۔ایک مہذب ملک میں ماڈل ٹائون جیسے واقعہ پر کوئی ابہام نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی رپورٹ لکھنے کی ضرورت پیش آتی۔

تازہ ترین