• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز اس امر کی توثیق کردی گئی کہ رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے اور فوجی عدالت سے سزائے موت کے مستحق قرار پانے والے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اہم کارندے اور بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی اہلیہ کے علاوہ والدہ کو بھی اس سے ملاقات کی باضابطہ طور پر اجازت دے دی گئی ہے۔واضح رہے کہ کلبھوشن کو گزشتہ سال تین مارچ کو پاکستان میں غیرقانونی پر داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس کے قبضے سے حاصل ہونے والے پاسپورٹ پر اس کا نام مبارک حسین پٹیل درج تھا۔ گرفتاری کے بعد کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے سامنے اور عدالت میں اعتراف کیا کہ اسے را کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی ، دہشت گرد تنظیموں سے رابطے اور انہیں وسائل فراہم کرنے کے علاوہ امن عمل اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے اور انہیں سبو تاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ کلبھوشن کے اعترافی بیانات کی دو ویڈیو ریکارڈنگ ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئیں جن کے ذریعے پوری دنیا بھارتی جاسوس کے سنگین جرائم سے واقف ہوچکی ہے۔ کلبھوشن کے اعترافات کی ملک کے خفیہ اداروں کی جانب سے مکمل تحقیق کی گئی جس سے پتہ چلا کہ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسند اور ملک دشمن قوتوں کو منظم کرنے اور تخریبی کارروائیوں کے لیے سہولتیں اور وسائل فراہم کرنے کا وسیع نیٹ ورک اس کی نگرانی میں کام کررہا تھا۔ کلبھوشن کے اعترافی بیانات اور واقعاتی شواہد کی بنیاد پر فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد اسے موت کی سزا سنائی گئی۔سال رواں میں اپریل کی دس تاریخ کو آئی ایس پی آر کے اعلامیہ میں بتایا گیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت مقدمہ چلاکر سزائے موت کا فیصلہ سنایا جس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس فیصلے کی توثیق بھی کردی جبکہ کلبھوشن کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی گئی۔تاہم بھارت نے عالمی ثالثی عدالت میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو چیلنج کرتے ہوئے اسے رکوانے کی اپیل کی جس کی سماعت رواں سال مئی میں ہوئی۔کیس کی سماعت کے پہلے مرحلے میں بھارت نے عالمی عدالت میں اپنے موقف کے حق میں دلائل دیے اور دوسرے مرحلے میں پاکستانی ماہرین قانون کی ٹیم نے عدالت کے روبرو اپنا موقف پیش کیاجس میں کہا گیا کہ یہ معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ تاہم عدالت نے حتمی فیصلے تک کلبھوشن کی سزاے موت کو مؤخر کرنے کی ہدایت کی۔پاکستانی وزارت خارجہ نے گزشتہ ماہ کی دس تاریخ کو اپنی بریفنگ میں انکشاف کیا کہ حکومت پاکستان نے خالصتاً انسانی بنیادوں پربھارتی بحریہ کے کمانڈر کلبھوشن یادیو اور ان کی اہلیہ کی ملاقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کو یہ پیش کش کی جاچکی ہے۔ایک ہفتے بعد بھارت کی جانب سے اس پیشکش کا جواب موصول ہوا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ کلبھوشن کی والدہ کو بھی ملاقات کی اجازت دی جائے جبکہ گزشتہ روز حکومت پاکستان نے اس درخواست کو منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ملاقات ماہ رواں کی پچیس تاریخ کو متوقع ہے جس میں کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ کے علاوہ بھارتی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو بھی موجود رہنے کی اجازت ہوگی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تصدیق کی ہے کہ اس ملاقات کے لیے حکومت پاکستان نے دونوں خواتین کو ویزے جاری کردیے ہیں۔ ممکن ہے ملک میں دہشت گردی کی متعدد خوں ریز کارروائیوں کے اقبالی مجرم کے بھیانک جرائم کے پیش نظر بعض لوگوں کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہو لیکن فی الحقیقت یہ فیصلہ انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات جن کی رو سے دوران جنگ بھی یہ حقوق معطل نہیں ہوتے اور انسانی ہمدردی کے بنیادی تقاضوں کی تکمیل کے مترادف ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے انسان دوست حلقے یقیناً اس کا خیر مقدم کریں گے۔

تازہ ترین