• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے نئے حالات پیدا ہونا اور ہو کر اسلامی مملکت قومی و ریاستی امور پر اثر انداز ہونا ایک مسلسل عمل ہے۔ ان ’’حالات حاضرہ‘‘میں سے کچھ مستقبل قریب کو متاثر کرتے کرتے ارتقاء کی شکل اختیار کر کے دور رس نتائج کا سبب بنتے ہیں ، کئی جلد جلد نتائج دے کر انقلابی تبدیلیوں کا اور کئی پر بڑا شور شرابا پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ ’’حالات حاضرہ‘‘ بغیر کسی اثر کے دم توڑ جاتے ہیں ۔ بعض نتیجہ خیز نہ ہو کر بھی تاریخ کا اہم حوالہ بن کر کتابوں میں (اب نیٹ پر بھی)محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ حالات حاضرہ کی دو جہتیں بہت واضح ہیں۔ ایک مملکت کے اندر ہی قومی ومقامی سرگرمیوں کے حوالے سے جنم لیتے ہیں اور دوسرے بیرونی دنیا سے بذریعہ میڈیا ہو اکے دوش پر آن واحد میں ہماری سرحدیں عبور کرتے داخل ہو تے ہیں اور ہماری سیاسی و اقتصادی، ثقافتی حتیٰ کہ نظریاتی تشخص کو مختلف درجے پر متاثر کرتے ہیں۔
گزشتہ کوئی سوا تین سال میں پاکستان کے داخلی اور بیرونی حوالوں کے حالات حاضرہ نے مملکت پاکستان کے داخلی اور بیرونی قومی و مملکتی امور کو چونکا دینے والے درجے پر متاثر کیا ہے۔ اس سے پاکستان میں سیاست و معیشت و معاشرت کا تلاطم بیک وقت نئی امیدوں کے چراغ بھی جلا رہا ہے اور تشویش اور انتباہ کی صورت بھی بن رہی ہے ۔ ہمارے قومی حالات حاضرہ ان ہی کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ حالات حاضرہ کی یہ سیریز جو آج تک مختلف طریقوں اور نئے نئے انداز اور رنگ میں قومی و مملکتی امور کو متاثر کر رہی ہے، اگست 2014 کے اسلام آباد میں لگائے طویل المیعاد عمران، قادری دھرنے سےشروع ہوئی ۔ تادم تحریراس کے بڑے بڑے نتائج آ رہے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اپنی ستر سالہ تاریخ کے بعد جن حالات حاضرہ یا ان کے فالو اپ کی لپیٹ میں ہے، اس نے ملک میں ایک بہتسنجیدہ اور توجہ کی طالب قومی صورتحال کو جنم دیا ہے، جس کی سنجیدگی کی بقا کی طوالت بڑھتی جا رہی ہے اور پاکستان کا بہت کچھ آشکار اور بے نقاب ہو رہا ہے۔ اچھا بھی برا بھی، کتنے ہی اہل نظر و قلب کے دل و دماغ میں امیدوں کا ایک نیا جہان بنتا جا رہا ہے اور ان کی خوش گمانیاں مسلمہ ہیں، تو مبتلائے مایوسی و تشویش اہل فکر بھی کم نہیں۔
فقیر کی کمزور نظر میں تو ارتقاء ہی غالب ہے، بڑی بڑی’’ ان ہونیاں‘‘ ہی ’’ہونی ‘‘ہو رہی ہیں ، تبدیلی کا رنگ ہی نمایاں ہے، لگ رہا ہے کہ اندھیرا چھٹ رہا ہے اور پہلی بار انصاف غریب کے بعد امیر میں بھی بٹ رہا ہے۔ لیکن ’’لندن ماڈل‘‘ پاکستانی اسٹیٹس کوکی کوکھ سے پیدا ہوئے تصور اور عمل جمہوریت کی زبردست سرگرمیوں کے نتیجے میں اگر پیدا ہوئی امیدوں کے حیران کن نتائج نکلنے کے بعد بھی حسن نثار کو آئین و قانون کے مطابق شروع ہوئے جاری و ساری احتسابی عمل کے ڈسٹرب ہونے کا دھڑکا لگ رہا ہے تو وہ حقیقت پسندی سے قریب ہے، کہ یہ خارج از امکان نہیں۔ اللہ کرے اس حوالے سےحسن کی چھٹی حس کمزور ثابت ہو ۔آخر اسٹیٹس کو سیاست کے شاہکار این آر او نے لندن میں ہی جنم لیا تھا، آج پھر پاکستانی سیاست کے حوالے سےلندن سر گرم ہے۔آئین نو میں بار بار نظام بد کی منفی طاقت کو انڈر ایسٹمیٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
بالآخر پانامہ لیکس نے بے نقاب کر دیا کہ پاکستان میں اسٹیٹس کوکی یہ طاقت ’’انڈر ورلڈ‘‘ کا کتنا بڑا جز، ترکیبی ہے۔ اتنا بڑا کے کابینہ کے بڑے بڑے اقامہ یافتہ ہیں اور ایک ایک اقامہ سٹوری کے نیچے پندرہ پندرہ پراسرار کمپنیوں کا خفیہ ریکارڈ دبا ہوا ہے۔ پھر جب پاکستان میں ان کمپنیوں کی حکومت ہو گی تو اندازہ کر لیں کہ اسٹیٹس کو کتنا طاقت ور ہو گا اور اس کے زور پر زیر احتساب حکمرانوں کے مبنی بر انصاف و قانون احتساب کی کامیابی کی تکمیل کتنی کٹھن ہے ۔یہ انڈر ورلڈ کی پہلی ضرورت اور مہارت کروڑوں اربوں کی واردات کے ثبوت کو مٹا کر اپنی جانب سے ہر ہر سوراخ بند کر دینا ہوتا ہے ، ایسے تو ہی ایک پیسے کی کرپشن ثابت کرنے پر پھانسی لٹکنے پر آمادگی کا بار بار اور کھلا اظہار نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان کا ہر جمہوریت پرست یہ ذہن نشین کر لے کہ اب پاکستان کا جمہوری و سیاسی حقیقی جمہوریت کا جاری لازمہ عدالتی احتسابی عمل سے اس طرح جڑ گیا ہے کہ اسے کسینہ کسی طرح اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کے ساتھ جمہوریت اکھڑتی جائے گی۔
حالات حاضرہ کی اہمیت کے اس پس منظر میں، مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس (یروشلم)کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا امریکی فیصلہ اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں اس کے خلاف رد عمل ، پاکستان میں حکومتی کرپشن کے خلاف پانامہ لیکس میں ٹاپ۔ڈائون احتسابی عمل اور اسے روکنے یا اسٹیٹس کو کے مخصوص حربوں سے ملزمان کا اس کا رخ اپنی حمایت میں کرنے کی لندنی کوششیں اور اب سانحہ ماڈل ٹائون کی کمیشنی رپورٹ عدلیہ کے حکم پر عام ہونے اور اس کے فالو اپ میں شاہ مفاہمت آصف زرداری اور شریف فیملی کی طرح آصف زرداری کے بھی ویری ، خان اعظم عمران خان، دونوں کی غیر حاضر (اب حاضر) شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادی کی احتجاجی تحریک کی حمایت ، جس میں علامہ صاحب نے ن لیگ کے بڑے سہارے پارہ صفت جناب شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیااور انہیں اور ان کے دست راست وزیر رانا ثناء اللہ کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی،علامہ صاحب اور ان کی جماعت کا سانحہ کے حوالے سے مطالبہ و حسرت کتنی پوری ہوتی، لیکن اس سے قومی سیاست ایک نیاہی رنگ اختیار کرتی معلوم دے رہی ہے۔ یاد آیا کہ ڈاکٹر صاحب کے اسلام آباد میں پہلے دھرنے سے قبل ایک’’ آئین نو‘‘طاہر القادری ۔’’پاکستانی قومی سیاست کا نیا فیکٹر ‘‘کے عنوان سے لکھا گیا تھا۔ عمران۔ قادری طویل المیعاد دھرنے سے یہ درست ثابت ہو ا اور اب کیا کمال ہو ا ہے کہ پاکستان میں حصول انصاف کی ایک ایسی تحریک بھی چلتی معلوم دے رہی ہے کہ جسے علامہ صاحب لیڈکریں گے اور عمران خان اور ان کے سیاسی حریف جناب زرداری دونوں ہی معاون قائد ہوں گے۔کیا عجب صورت ہے، حالات حاضرہ کی؟جس سے قومی سیاست خصوصاً انتخابی کا بھی کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔
ادھر امریکی صدر ،جو اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے مقابل رد عمل ، رسپانس اور نتائج کو مکمل حقیر جانتے ہیں نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا مقابل جو چھکا لگایا ہے ۔ کیا وہ امریکہ کو عالمی سیاست کے بڑے حصے سے آئوٹ کر دے گا؟عالم اسلام اسے کتنا ہضم کرے گا؟نہیں کرتا تو بات کہاں جائے گی اور ہو گیا تو ہم بطور مسلمان کتنے گہرے گڑھے میں گریں گے؟جو بھی ہونا ہے ٹرمپ صاحب بھڑکا ئوے دیکھیںکہ کیا کیا امریکہ کا بھسم ہوتا ہے اور کیا کیا ہم مسلمانوں کا ۔ بہرحال پاکستان اس اشتعال انگیزی سے اپنے خلاف ٹرمپ کی اشتعال انگزی کو کم تر کر سکتا ہے لیکن ہم سفارت کاری کی پرفارمنس میں اب کہاں کھڑے ہیں؟ یہ سوال خواجہ آصف کی وزارت میں کافی سنجیدہ ہے، جس کے صحیح جواب کابہر طور نکالنا ہے۔
جہاں تک معاملہ ہے ملک میں جاری و ساری احتسابی عمل کا، لندنی سیاست کے اسے ثبوتاژ کرنے کی سازش ، انڈر ورلڈ اور پاکستان دشمن بین الاقوامی سیاست سے گٹھ جوڑ کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، لگ یہ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا چھکا اب اس امکانی گٹھ جوڑ کو ماضی کی طرح زیادہ نتیجہ خیز نہ بنا سکے گا۔
عمران خان نے جس انداز میں اور انتخابی مہم کا پرجوش آغاز کیا ہے، وہ بر وقت ہونے کے باعث عمران خان اور تحریک انصاف کی واضح ہونے والی کمزوریوں خامیوں کو دباتی، خان صاحب کی مقبولیت کو پھر سے بڑھاتی معلوم دے رہی ہے۔ انتخابات کے انعقاد تک یہ پی ٹی آئی کے حوالے سے حالت حاضرہ برقرار رہتی اور بڑھتی معلوم دیتی ہے ۔ دوسری جانب پانامہ لیکس کے تناظر میں جناب نواز شریف کی منی ٹریل کی وضاحت سے متعلق اسمبلی میں ہونے والی تقریر کو عدالتی کارروائی کے دوران ’’سیاسی ‘‘قرار دینے کے بعد نیب عدالت کے سوال کے جواب میں کہ آپ کا لائف اسٹائل، آپ کے اعلانیہ اثاثوں سے میچ نہیں کھاتا، سابق کا یہ رسپانس کہ میچ نہیں کھاتا تو آپ کو کیا؟رسپانس دے کر لندن روانگی بڑی ڈیمیجنگ نہیں؟ لیکن ن لیگ کو تو رائے عامہ پڑھنی ہی نہیں آتی ، ایسے میں حالات حاضرہ لیگی حکومت ، پارٹی اور لندنی گروپ کے قابو سے باہر ہیں، ہیں تو احتسابی عمل بھی نہ رک سکے گا۔

تازہ ترین